بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہر مفعول اور ہر وہ چیز جس کے فعل کا ارادہ کیا جائے وہ حادث ہی ہوتا ہے بعد اس کے کہ وہ موجود نہیں تھا اور اس کے ذریعے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ یہ امرممتنع ہے کہ وہاں پر ممکنات میں سے کسی شے کو وجود دینے کاایک ایسا ارادہ ازلیہ موجودہو جس کے ساتھ اس کی مراد مقارن ہو ازلا اور ابداً۔ خواہ ان تمام افعال کو وہ عام ہو جو ان سے صادر ہوں یا بعض مفعولات کے ساتھ خاص ہو ۔
اس(ارادے ) کا تمام مفعولات کو عام ہونے کا امتناع تو ظاہر ہے اور عقلاء کے درمیان متفق علیہ ہے اس لیے کہ یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ ہر وہ فعل جو اس سے صادر ہو بالواسطہ یا بلا واسطہ ،قدیمِ ازلی ہو پس یہ بات لازم آئے گی کہ عالم میں کوئی بھی شے حادث نہ ہو اور یہ تواس مشاہدے کے خلاف ہو جو مخلوق کرتی ہے یعنی تمام آسمانوں اور زمینوں کا حدوث ،ان کے درمیان مخلوقات کا حدوث ،اس طرح اجسام اور اعراض کی حرکات جیسے شمس و قمر کی حرکت اور اسی طرح ستاروں ،ہواؤں ،بادل اور بارش کی حرکت اور اس طرح جو پیدا ہوتا ہے مخلوقات میں سے نباتات ،حیوانات اور زمین کے اندر موجود معادن ۔
رہا کسی متعین کا ارادہ کرنا تو اس میں وہی کلام ہے جو ماقبل میں گزرا اور اس صورت میں یا تو یہ کہا جائے گا کہ اس ذات کے لیے صرف اور صرف وہی ایک ارادہ ازلیہ ثابت ہے یا یہ کہا جائے گا کہ اس ذات کے لیے ایک ایسا ارادہ ثابت ہے جوشیئا فشیئا وجود میں آتا ہے ۔
اگر پہلا معنی مرادلیا جائے تو اس تقدیر پرلازم آئیگا کہ ایک مریدِ ازلی ذات ازل میں اپنے مرادِ ازلی کے ساتھ مقارن ہے پس وہ حوادث سے کسی بھی شی کا کسی حال میں ارادہ بھی نہیں کریں گے نہ ارادہ قدیمہ نہ ارادہ متجددہ (یعنی دھیرے دھیرے وجود میں آنے والا)اس لیے کہ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ ارادہ کرنے والی ازلی ذات کی مراد اس کے ارادے کیساتھ مقارن ہوتی ہے تو یہ حادث بھی حادث ہی ہوگا۔
اس کا حدوث دو حال سے خالی نہیں ہوگا یا تو ارادہ ازلیہ کے ساتھ ہوگا پس ارادہ کرنے والی ذات اپنے مراد کے ساتھ مقارن نہیں ہوگی یا حادث ہوگا کسی ایسے ارادے کے ساتھ کہ وہ بھی حادث ہو اور اس کے ساتھ مقارن ہو اوریہ تو دو وجہ سے باطل ہے :
ایک تو اس لئے کہ یہ بات تو پہلے سے فرض کی جا چکی ہے کہ اس ذات کے لیے صر ف اور صرف ایک ہی ارادہ ازلیہ ہے اور دوسرے یہ کہ اس ارادے کا حدوث کسی سببِ حادث کی طرف محتاج ہو۔اور اس سببِ حاد ث میں کلام اسی طرح ہے جو اس کے غیر میں ہے اوریہ بات ممتنع ہے کہ وہ ارادہ ازلیہ کے ذریعے حادث ہو جائے جوکہ مستلزم ہے اپنے مراد کی مقارنت اور اتصال کو اور یہ بات بھی ممتنع ہے کہ وہ بغیر کسی ارادے کے حادث ہو جائے بوجہ اس کے کہ حادث کا پیدا ہونا بغیر ارادے کے ممتنع ہے۔
|