Maktaba Wahhabi

235 - 779
متنفیہ (علت معدومہ )کے ساتھ معلل کر دیا اس کے وجود کے وقت میں اور یہ تو اُس بات پر دلالت کرتا ہے جو اس نے ذکر کی ہے اور یہ توان کے خلاف حجت ہے نہ کہ ان کے حق میں اور یہ بات اس شخص کے لیے واضح ہے جو اس میں تھوڑا غور اور تدبر کرے ۔ یہ امر اور اس کے علاوہ دوسرے امور اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اس گمراہ قوم نے اللہ تعالیٰ کی اس فطرت کو تبدیل کر دیا جس پر اس نے اپنے بندوں کو پیدا فرمایا تھا پس یہ صریح معقول اور صحیح منقول سے نکل گئے ہیں اور اُس الحاد میں پڑگئے جو بہت بڑا کفر اور عناد ہے اور ان کے اقوال میں وہ تناقض اور فساد داخل ہوا جس کا علم صرف اور صرف رب العالمین کو ہے باوجود اس کے وہ کہ اس بات کا دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم عقلی دلائل اور معارفِ حکمیہ رکھتے ہیں اور یہ کہ حقیقی علوم تو اُس کلام میں مضمر ہیں جو ہم کہتے ہیں ،ان تعلیمات میں نہیں جو اللہ اور اس کے رسول لے کر آئے ہیں جو حقیقتاً تمام عالم میں اعلیٰ ،افضل اور اعلم ہیں اور یہ ملحدین گمراہ کن کلام کے ذریعے نقلی دلائل اور معقولات کا مقابلہ کرتے ہیں اس لیے کہ یہ بات واضح ہے کہ ُاس خالق کی طرف محتاج مخلوق حالت ِ وجود میں اس کی طرف محتاج ہے ۔ رہی یہ بات کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ عدم پر باقی ہے تو اس حال میں اس کا عدم اس کے وجود کے لئے کسی خالق کی طرف محتاج نہیں ہوتا بلکہ اس کے عدم کا کوئی فاعل ہی نہیں ہوتا ،اگرچہ ان لوگوں نے یہ کہا کہ اس کا عدم کسی مرجح کی طرف محتاج ہے پس اس کے نزدیک مرجح عدمِ علت ہے اور تمام کے تمام ہی عدم ہیں ۔انہوں نے یہ نہیں کہا کہ عدم کسی موجود کی طرف محتاج ہے اگرچہ یہ ایک بین اور واضح بات ہے پس احتیاج کے جہت کے بارے میں ان کا یہ کہنا ’’کہ یہ بات ضروری ہے کہ وہ مؤثر کے ہوتے ہوئے اس طرح باقی نہ رہے جس طرح کہ مؤثر کی غیر موجودگی میں تھا ‘‘ایک ایسا کلام ہے جس میں تلبیس اور خلط ملط پایا جاتا ہے اس لیے کہ احتیاج تو اُس حال میں ہوتا ہے جس میں مؤثر تاثیر کررہا ہو پس مؤثر کی طرف احتیاج اس حال میں کیسے ختم ہو جائے گی جس میں وہ مؤثر کی طرف محتاج ہے اور کیسے وہ کسی مؤثر کی طرف محتاج ہو گا جبکہ وہ اس حال میں اثر ہی نہیں کرتا اور وہ معدوم ہے وہ تو اصلاً کسی مؤثر کی طرف محتاج ہی نہیں اور وہ احتیاج ہی کی حالت میں محتاج نہیں بنتا ؟ اگر وہ یہ کہے کہ ان کا وجود عدم کی حالت میں ممکن نہیں مگر کسی مؤثر کے ذریعے تو ہم یہ کہیں گے کہ یہ اس کلام کا بعض ہے جو ہم نے ذکر کر دیا اس لیے کہ ان کا مؤثر کے بغیر موجود نہ ہونا ایک امر لازم ہے اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ تو اس کے لیے حالتِ عدم میں ثابت ہے ،حالتِ وجود میں نہیں اور جب یہ بات واضح ہوگئی کہ فعل مفعول کے حدوث کومستلزم ہے اور یہ بات بھی کہ فاعل کا کسی فعل کا ارادہ کرنا مراد کے حدوث کو مستلزم ہے تو یہ اس
Flag Counter