Maktaba Wahhabi

261 - 391
ہوں اور انابت و خشوع، ذکر و فکر اوراد و وظائف میں انہماک کو وہ حاصل زندگی شمار کریں۔ احسان و تبتل الی اللہ ان کی محبوب ترین متاع ہو اور وہ ان مجالس و اوقات کے لیے مضطرب و بے چین ہوں، جن میں ذکرِ الٰہی کے وسیلے سے ملائکہ کی رفاقت اور ان کے سایۂ عاطفت کا وعدہ لسانِ رسالت سے کیا گیا ہے۔‘‘ نیز انھوں نے جامعہ کے بارے میں لکھا: ’’یہ دار العلوم جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا ہے اس کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ یہاں کا ماحول اس دور زوال میں مسجدِ نبوی ۔علی صاحبھا الصلاۃ والتسلیمات۔ کو اپنا محور تصور کرے۔ یہاں کے معلّمین، منتظمین اور طلبا، اللہ رؤف و رحیم کے الطاف و عنایات سے اس کی عطا فرمودہ توفیق سے ایسا ماحول بنائیں جس میں فرائض کی پابندی، سنت کی اتباع، نوافل کا اہتمام، دین کے لیے محنت و ایثار، مجالسِ ذکر و تعلیم کے چرچے بھی ہوں اور آنکھیں ان مناظر کو بار بار دیکھیں کہ علم و عمل اور ذکر و فکر کی ہم آہنگی کی طرح نو ڈالی جا رہی ہے۔‘‘[1] علم کے ساتھ ساتھ عمل اور ذکر و فکر کے اہتمام کا جذبہ ان کے الفاظ سے عیاں، بلاشبہ سابقہ قرون میں ہمارے مدارس و شیوخ کرام علم کا خزانہ ہی نہ تھے، بلکہ اس کی حیثیت عمل و تربیت کی بھٹی کی تھی۔ جو وہاں جاتا کندن بن کر نکلتا اور ہزاروں لاکھوں کے دلوں کو منور کرتا۔ مگر آہ ! آں قدح بشکست و آں ساقی نماند
Flag Counter