گویا علامہ ذہبی کے کلام سے امام ازدی کے حوالے سے جو ابہام پایا جاتا ہے حضرت شاہ صاحب نے خود علامہ ذہبی کے متعدد حوالوں سے اس کی وضاحت فرما دی۔ اسی ایک مقام سے ان کی باریک بینی اور فنِ رجال سے ان کی وسعتِ معلومات کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ پوری کتاب اس نوعیت کی بہت سی غلط فہمیوں کے ازالہ پر مشتمل ہے۔ ’’إنہاء السکن‘‘ جب ’’قواعد في علوم الحدیث‘‘ کے عنوان سے طبع ہوئی اور شیخ ابو غدہ نے مزید اس میں رنگ بھرنے کی کوشش کی تو اس عاجز نے حضرت شاہ صاحب سے عرض کی کہ از سرِنو اب اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، مگر انھوں نے فرمایا کہ اس کے لیے اب کوئی فرصت نہیں پاتا اور جہاں تک بنیادی اصولوں کا تعلق ہے اس پر بحث ہو چکی ہے۔ اس لیے اس کی مزید ضرورت بھی نہیں۔ بہرحال یہ کتاب بھی حضرت شاہ صاحب کے علم و فضل کا شاہکار ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ محترم شیخ صلاح الدین مقبول احمد کو جزائے خیر عطا فرمائے، جنھوں نے بہترین زیورِ طبع سے آراستہ کر کے اس کو شائع کیا۔ کیا ہی خوب ہوتا اگر وہ اس کا تفصیلی انڈکس بھی بنا دیتے۔ حضرت شاہ صاحب نے جن مراجع سے استفادہ کیا ان کی فہرست بھی شامل ہوتی۔ ان کے مراجع میں جن مخطوطات سے استفادہ کیا گیا ہے، ان میں اکثر طبع ہو چکے ہیں۔ ان مطبوعہ نسخوں کی مراجعت ہو جاتی ہے، تاہم جو ہے بسا غنیمت ہے اور اہلِ علم اس پر ان کے اور حضرت شاہ صاحب کے شکر گزار ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ’’انہاء السکن‘‘ کا جواب شیخنا المحدث الحافظ محمد گوندلوی (نور اللہ مرقدہ) نے بھی دیا تھا۔ جس کا دو تین بار انھوں نے ذکر کیا۔ راقم نے اس کی کچھ تفصیل معلوم کرنے کی ان سے گزارش کی تو انھوں نے فرمایا کہ مدینہ یونیورسٹی میں تدریس کے دوران میں اس کا نسخہ حافظ فتحی مرحوم نے مجھے دیا تھا اور
|