Maktaba Wahhabi

188 - 391
کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے، اس کے بارے میں حضرت شاہ صاحب کی رائے لے لیں، انھیں اس حوالے سے جس قدر استحضار ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ حسنِ اتفاق کہ حضرت شاہ صاحب فیصل آباد تشریف لائے۔ راقم نے یہ مسودہ ان کی خدمت میں پیش کیا۔ انھوں نے اس کی تصویب و تائید فرمائی اور یوں وہ بہت سے دل دوز مراحل کے بعد ’’مسئلہ رفع الیدین پر ایک نئی کاوش کا تحقیقی جائزہ‘‘ کے عنوان سے جس کا دوسرا نام ’’التحقیق والإیضاح للبس ما في نور الصباح‘‘ ہے ۱۴۰۲ھ بمطابق ۱۹۸۰ء میں طبع ہوا۔ جس میں ’’انکشافی دلائل‘‘ کو تارِ عنکبوت کی طرح تار تار کر دیا گیا۔ جلاء العینین کی تیاری کے مراحل میں راقم نے حضرت شاہ صاحب سے عرض کی کہ عربی زبان میں اس مسئلہ کی وضاحت کا تقاضا ہے کہ ان ’’انکشافی دلائل‘‘ کا تجزیہ و تحلیل بھی مناسب مقامات پر ذکر ہونی چاہیے۔ حضرت شاہ صاحب نے پہلے تو اس میں تامل فرمایا، مگر میری مکرر جسارت کے بعد انھوں نے اس حقیر مشورہ کو قبول فرمایا اور ’’التحقیق والإیضاح‘‘ کے مباحث جلاء العینین کے مناسب مقامات پر مجھے لکھوا دیے۔ یوں یہ کتاب پہلی بار ذوالقعدہ ۱۴۰۳ھ بمطابق اگست ۱۹۸۲ء میں زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر شائقین کے ہاتھوں میں پہنچی۔ والحمد للّٰه علی ذلک۔ کتاب کی طباعت کے فوراً بعد ایک نسخہ حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں ارسال کر دیا گیا۔ ۱۹ محرم الحرام ۱۴۰۴ھ کو ان کا مکتوب گرامی ملا۔ جس میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی انھوں نے لکھا: ’’ایک بات جو رہ گئی کہ کتاب کے صفحہ ۱۲۹ پر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے: ’’لا سیما السلیماني بنفسہ متھم ولہ ترجمۃ في المیزان واللسان‘‘ یہ عبارت غلطی سے آگئی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے میں نے اصل نسخہ سے بھی کاٹ دی تھی۔ بہرحال آپ یہ عبارت سب نسخوں سے کاٹ
Flag Counter