Maktaba Wahhabi

176 - 391
فرمانے لگے بس اتنے دن ہی، کچھ دن اور ٹھہر جاؤ۔ اپنی مصروفیات کی بنا پر معذرت کی تو مجھے انھوں نے الوداعی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا اور اپنے گھر کی ہاتھ سے بنی ہوئی دھاگے کی ٹوپی عنایت فرمائی۔ اس سے قبل میں صرف سر پر رومال رکھتا تھا، اس کے بعد سے سر پر ٹوپی رکھنے لگا۔ ۱۹۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ ہوا، پاکستان کا ایک حصہ جدا ہوگیا۔ ملتِ اسلامیہ پر بالعموم اور پاکستانیوں پربالخصوص غم کے پہاڑ ٹوٹے، بہت سے لوگ اسی صدمہ کو برداشت نہ کر سکے تو موت کے منہ میں چلے گئے۔ ایک سراسیمگی اور دیوانگی کی فضا ہر سو پائی جاتی تھی۔ انہی ایام میں حضرت شاہ صاحب ’’لائل پور‘‘ تشریف لائے۔ ادارہ کے وہ مہمان تھے۔ پروگرام بنا کہ شہر کے ہر مکتبۂ فکر کے علمائے کرام کو بلانا چاہیے اور موجودہ حالات میں حضرت شاہ صاحب کے بیان سے راہنمائی لینی چاہیے۔ چنانچہ محترم میاں غلام محمد صاحب کے مکان پیپلز کالونی میں علمائے کرام کو زحمت دی گئی۔ تمام حضرات کشاں کشاں وہاں عصر کی نماز کے بعد تشریف لائے۔ بھرپور اجتماع ہوا حضرت مولانا محمد اسحاق چیمہ مرحوم نے بڑی فکرمندی سے مجھے فرمایا کہ حضرت شاہ صاحب کو اجتماع کی نزاکت سے آگاہ کر دو کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت موصوف کوئی ایسی بات کہیں جو مسلکی اعتبار سے علمائے احناف کو ناگوار گزرے اور مجلس کسی بدمزگی کا شکار ہو کر رہ جائے۔ میں نے عرض کی میں نہ اس کی جسارت کر سکتا ہوں اور نہ ہی میں اس کی ضرورت سمجھتا ہوں۔ بس ان سے اجتماع کی غرض و غایت عرض کر دی ہے اور تشریف لانے والے حضرات کے بارے میں بھی انھیں بتلا دیا گیا ہے۔ تلاوت کلام پاک کے بعد میرے محترم و مخدوم مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف مرحوم نے ابتدائی گفتگو کی۔ اہلِ پاکستان کے دکھ درد کا ذکر کیا اور حضرت شاہ صاحب کو دعوتِ خطاب دی۔
Flag Counter