Maktaba Wahhabi

145 - 391
میں مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی ہی میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوا اور دوسرا حصہ بھی اس کی زندگی ہی میں رمضان المبارک ۱۳۲۳ھ (۱۹۰۴ء) میں طبع ہوا۔ جب کہ مرزا جی ۲۴ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ بمطابق ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء اپنے انجام کو پہنچا۔ افسوس کہ ’’شہادت القرآن کی طبع اول دیکھنے کی سعادت حاصل نہ ہو سکی۔ حضرت مولانا سیالکوٹی نے یہ کتاب مرزا غلام احمد قادیانی کو بھجوائی۔ وہ شہادت القرآن ملنے کے کئی سال بعد زندہ رہے، مگر اس کا جواب دینے کی جرأت نہ کر سکے۔ چنانچہ مولانا سیالکوٹی نے ﴿قَدْ خَلَتْ ﴾ کی تفسیر کے ضمن میں بھی لکھا: ’’اس کا مفصل جواب ہم نے اپنی کتاب شہادت القرآن حصہ دوم میں لکھ دیا ہے جو مرزا جی کی زندگی ہی میں ۱۳۲۳ھ میں شائع ہوئی تھی اور ہم نے رجسٹری کرا کے مرزا صاحب کو قادیان میں بھیج دی تھی، لیکن اس کا جواب نہ مرزا جی سے ان کی زندگی میں ہو سکا اور نہ ان کے بعد ان کی جماعت کے کسی ذی علم سے آج (۸ مارچ ۱۹۴۷ء مطابق ۱۴ ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ تک) ہو سکا۔ چالیس روز تین سال کی خاموشی بے معنی نہیں ہے۔‘‘ (تبصیر الرحمن فی تفسیر القرآن: ۱/۳۲۳) پھر کچھ عرصہ بعد اس کی طباعت کا اہتمام شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے کیا، چنانچہ پہلا حصہ ۱۳۳۰ھ بمطابق ۱۹۱۲ء میں شائع ہوا۔ جو ۱۹۸ صفحات پر مشتمل تھا اور دوسرا حصہ ۱۳۴۰ھ بمطابق ۱۹۲۲ء میں طبع ہوا۔ جو ۱۳۲ صفحات پر مشتمل تھا۔ مرزا قادیانی کی وفات کے کئی سال بعد ’’شہادت القرآن‘‘ کے صرف حصہ اول کا جواب قاضی ظہور الدین اکمل نامی قادیانی نے دینے کی کوشش کی اور اس کا نام ’’شہادت الفرقان‘‘ رکھا۔ کچھ عرصہ بعد جب ’’شہادت القرآن‘‘ کی
Flag Counter