Maktaba Wahhabi

143 - 391
سلسلے میں اپنے ہم سبق رفقا اور پھر بعض اساتذہ کرام سے رجوع کیا مگر تشفی نہ ہوئی۔ چند ہی ہفتوں بعد سہ روزہ اہلِ حدیث کانفرنس ماموں کانجن کے انعقاد کا اعلان ہوا۔ میں نے اس سے قبل نہ ماموں کانجن دیکھا تھا اور نہ ہی کسی اہلِ حدیث کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ میرے ساتھیوں بالخصوص مولانا عبدالکریم ثاقب صاحب (جو ان دنوں برمنگھم میں ہیں) اور مولانا حافظ عبدالستار صاحب (جو کوٹ ادّو میں تعلیم و تعلّم کا سلسلہ قائم کیے ہوئے ہیں) نے مجھے اس میں شمولیت پر آمادہ کیا۔ اور طے پایا کہ امام المناظرین حضرت مولانا احمد دین گکھڑوی رحمہ اللہ صاحب سے حیاتِ مسیح کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ اور ان سے اس بارے میں اپنی الجھنوں کا حل نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔ چنانچہ کانفرنس کے موقع پر جب ہم حضرت مولانا گکھڑوی مرحوم کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے تو سلام کے بعد ہم نے اپنا تعارف کرایا کہ الجامعۃ السلفیہ سے حاضر ہوئے ہیں اور حیاتِ مسیح کے بارے میں چند شبہات کا ازالہ چاہتے ہیں۔ حضرت مولانا رحمہ اللہ نے ہماری معروضات سنیں مگر ان کے جواب میں اپنے فطری انداز کے مطابق مناظرانہ ڈھب اختیار کیا مگر افسوس کہ ایک ابتدائی طالب علم ہونے کے ناطے اس ناکارہ کی تشفی نہ ہوئی۔ مناظرہ میں فریقِ مخالف کو خاموش کر دینا اور بات ہے۔ مگر ایک طالب علم کی سطح پر اتر کر اس کی تسلی و تشفی کرنا، تاکہ اسے اطمینانِ قلب حاصل ہو، امرِ ثانی ہے۔ واقف کار حضرات باخبر ہیں کہ ان دنوں ماموں کانجن آمدورفت کا راستہ تاندلیانوالہ سے بذریعہ ریل تھا یا مرید والا سے بذریعہ تانگہ۔ بسوں کی وہ ریل پیل نہیں تھی جو الحمد للہ آج ہے۔ اکثر علمائے کرام بذریعہ ریل ہی تشریف لاتے تھے۔ عصر کی نماز کے قریب ماموں کانجن میں لاہور اور شور کوٹ سے آنے والی گاڑیوں کا کراس ہوتا تھا، بلکہ اب بھی ہوتا ہے۔ ہم علمائے کرام کے استقبال کے لیے اسٹیشن پر
Flag Counter