Maktaba Wahhabi

135 - 391
یہ مکتوب ۳ مئی ۱۹۳۴ء کا ہے، اس مکتوب سے بظاہر مولانا مبارکپوری کی مزید تین کتابوں کا پتا چلتا ہے: 26. جواب نور العینی۔ 27. رسالہ گاؤکشی۔ 28. رسالہ قربانی (محدث مبارکپوری حیات و خدمات، ص: ۱۳۰) مگر عموماً تذکرہ نگار ان کا ذکر نہیں کرتے۔ 29. حضرت مولانا شمس الحق محدث ڈیانوی کے فرمان پر محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے شیخ الکل حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے فتاویٰ کو بھی جمع کیا (مقدمہ تحفہ)۔ جو پہلے دو ضخیم جلدوں میں اور پھر تین جلدوں میں شائع ہوا۔ اس فتاویٰ میں متعدد ایسے فتوے ہیں، جنھیں حضرت محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے لکھا اور ان پر تائیدی دستخط حضرت میاں صاحب کے ہیں، چنانچہ جو فتاویٰ نذیریہ اہلِ حدیث اکادمی لاہور سے ۱۳۹۰ھ/ ۱۹۷۱ء میں شائع ہوا ہے، اس کی جلد اول میں ان کے ایسے فتاویٰ ۴۸، دوسری میں ۴۶ اور تیسری میں ۶۵ ہیں۔ گویا محدث مبارکپوری کے فتاوے کی تعداد ۱۵۹ ہے، جو میاں صاحب کے مصدقہ ہیں، بلکہ میاں صاحب کے فتاویٰ کے بعد سب سے زیادہ فتاویٰ حضرت محدث مبارکپوری کے ہیں۔ 30. آخری عمر میں مولانا رحمہ اللہ نے اپنے شیخ حضرت مولانا حافظ عبداللہ رحمہ اللہ غازی پوری کے فتاویٰ کو بھی فقہی ابواب پر مرتب کیا تھا، لیکن اس کی اشاعت نہیں ہوئی۔[1] مگر اب حافظ غازی پوری رحمہ اللہ کے یہ فتاویٰ ہمارے فاضل دوست مولانا حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ کی تحقیق و مراجعت سے دار ابی الطیب گوجرانوالہ سے شائع ہو گئے ہیں۔ والحمد للّٰه علی ذلک۔ 31. مولانا عبدالسمیع مرحوم نے ذکر کیا ہے کہ فتاویٰ نذیریہ میں حضرت محدث کے فتاویٰ کے علاوہ بھی بہت سے فتاوے انھوں نے لکھے تھے۔ علم میراث میں انھیں
Flag Counter