Maktaba Wahhabi

78 - 358
دیتے تو ہم سخت مواخذہ کرتے۔ اس آیت میں گویا اس بات کی وضاحت ہے کہ آپ نے اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر اﷲ تعالیٰ کے ذمے نہیں لگائی۔ اس آیت کی روشنی میں آپ رجم کی احادیث دیکھ لیں۔ ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تو اس بات کو واضح فرمایا کہ رجم کی یہ حد ان زانیوں کے لیے ہے، جو شادی شدہ ہونے کے باوجود اس فعلِ شنیع کا ارتکاب کرتے ہیں۔ دوسرے، یہ بھی واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ یہ سزا میں اپنی طرف سے نہیں، بلکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم پر دے رہا ہوں۔ جب سورت نساء کی آیت: {وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ} [النساء: ۱۵] میں بیان کردہ عبوری سزائے زنا ختم کر کے زنا کی مستقل سزا مقرر کی گئی تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( خُذُوْا عَنِّي، خُذُوْا عَنِّيْ، خُذُوْا عَنِّيْ، قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا )) [1] الحدیث ’’مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، اﷲ نے ان (زانی عورتوں) کے لیے راستہ بنا دیا ہے۔ یعنی مستقل سزا مقرر کر دی ہے۔‘‘ اور پھر آپ نے یہی دو سزائیں، ایک غیر شادی شدہ کے لیے (سو کوڑے) اور شادی شدہ کے لیے رجم، بیان فرمائیں۔ نیز اسے ’’کتاب اﷲ‘‘ کے فیصلے سے بھی تعبیر فرمایا، جیسا کہ پہلے گزر چکا اور مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔ اگر ہمارے پیغمبر نے یہ سزائیں یا صرف ایک سزائے رجم اپنی طرف سے گھڑی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا مواخذۂ الٰہی سے محفوظ نہ رہتے۔ آپ کا اس مواخذے سے محفوظ رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ حدِ رجم کی یہ سزا، وعدۂ الٰہی کے مطابق عبوری سزا کے بعد، مستقل سزا اﷲ تعالیٰ ہی نے وحیِ خفی کے ذریعے
Flag Counter