Maktaba Wahhabi

308 - 358
اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور یوں ہی چھوڑ دو گے تو کجی باقی رہے گی، پس عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت قبول کرو۔‘‘ شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ عورت کے مزاج میں کجی (ٹیڑھا پن) ہے (جو ضد وغیرہ کی شکل میں بالعموم ظاہر ہوتی رہتی ہے) پس اس کمزوری میں اسے معذور سمجھو، کیوں کہ یہ پیدایشی ہے، اسے صبر اور حوصلے سے برداشت کرو اور ان کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کرو۔ اگر تم انھیں سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکو گے، جب کہ ان کا وجود انسان کے سکون کے لیے ضروری ہے اور کشمکشِ حیات میں ان کا تعاون ناگزیر ہے، اس لیے صبر کے بغیر ان سے فائدہ اُٹھانا اور نباہ ناممکن ہے۔‘‘[1] بہر حال عورت کی یہی وہ فطری کمزوری ہے، جس کی وجہ سے اﷲ نے مرد کو حقِ طلاق دیا ہے، لیکن عورت کو نہیں دیا۔ عورت کا مفاد ایک مرد سے وابستہ اور اس کی رفیقۂ حیات بن کر رہنے ہی میں ہے نہ کہ گھر اُجاڑنے میں، اور عورت کے اس مفاد کو عورت کے مقابلے میں مرد ہی صبر و ضبط اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کر کے زیادہ ملحوظ رکھتا اور رکھ سکتا ہے۔ بنا بریں اسلام کا یہ قانونِ طلاق بھی عورت کے مفاد ہی میں ہے، گو عورت آج کل پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اس کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
Flag Counter