Maktaba Wahhabi

241 - 358
گویا شریعتِ اسلامیہ میں اس عورت کے انکارِ زنا میں سچے ہونے کے امکان کو تسلیم ہی نہیں کیا، جس سے اس کے خاوند نے لعان کیا ہو۔ جب واقعہ یہ ہے تو ڈی، این، اے کے ذریعے سے تحقیقِ نسب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس مسئلے میں شریعت نے اجتہاد کی گنجایش ہی نہیں رکھی ہے، بلکہ قطعی فیصلہ کر دیا ہے کہ لعان والی عورت سے پیدا ہونے والے بچے کا انتساب باپ کی طرف نہیں، بلکہ ماں ہی کی طرف ہو گا، باپ کے ساتھ نسب ملنے ملانے کے امکان ہی کو تسلیم نہیں کیا۔ تیسرا مفروضہ عمار صاحب کے ’’اجتہاد‘‘ میں یہ کار فرما ہے کہ ڈی، این، اے ٹیسٹ تحقیقِ نسب کا قابلِ اعتماد ذریعہ ہے، لیکن ہمارے ملک میں کرپشن کی جو گھمبیر صورتِ حال ہے، اس کی موجودگی میں کسی طبی رپورٹ کو قابلِ اعتماد قرار دیا جا سکتا ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ جو شخص بھی ڈی، این، اے ٹیسٹ کی رپورٹ حاصل کرنا چاہے گا تو چار مراحل سے گزر کر ہی وہ رپورٹ اس کو حاصل ہوگی: 1 ایک وہ شخص جو نمونہ حاصل کرے گا۔ 2 دوسرا وہ فنی ماہر جو اس کو تحلیل کرے گا۔ 3 تیسرا وہ ڈاکٹر جو اس کی کیفیت و نوعیت کا تجزیہ کر کے نتیجہ تحریر کرے گا۔ 4 چوتھا وہ جو اسے کمپوز کرے گا۔ وصول کرنے والا پانچواں شخص ہوگا۔ کیا مذکورہ چاروں مراحل قابلِ اعتماد اور یقینی ہیں؟ کیا ان میں کسی بھی مرحلے پر گڑبڑ کا کوئی امکان نہیں ہے؟ پھر ایسی مشکوک رپورٹ پر کس طرح ایک مسلمان یا اس کے پورے کنبے اور خاندان کی عزت کو داؤ پر لگایا جا سکتا ہے؟ اور کس طرح ایک نامعلوم نسب کو کسی کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے؟
Flag Counter