Maktaba Wahhabi

178 - 358
اس سلسلے میں ’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے‘‘ نامی ایک اُردو کتاب سے بعض واقعات پیش کر کے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ عورتوں کی شہادت پر حدود نافذ کی گئی ہیں۔ حالاں کہ اول تو یہ اُردو کی کتاب ہے، جو بے سند ہے۔ ثانیاً واقعات کا انداز بتلا رہا ہے کہ کسی شخص نے گھر میں بیٹھ کر یہ واقعات تصنیف کیے ہیں، جس سے مولف کا مقصد صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو نمایاں اور ممتاز کرنا ہے، بلکہ اُن کے اندر خدائی صفات کا اثبات ہے، جس طرح کہ ’’محراب میں لاش‘‘ والے واقعے سے واضح ہے۔ تاہم اس کے باوجود راقم نے ان واقعات کو غور سے پڑھا ہے، لیکن سوائے ایک واقعے کے کسی کا بھی تعلق مسئلہ زیرِ بحث سے نہیں ہے۔ یہ واقعہ صفحہ (۲۵۰) پر بعنوان ’’ایک یتیمہ پر انوکھا ظلم‘‘ ہے۔ صرف یہ واقعہ ایسا ہے کہ جس میں زنا کی گواہ صرف عورتیں تھیں (اور یہ سب جھوٹی تھیں) لیکن اس کے باوجود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے گواہی کے لیے ان کو طلب کیا۔ اس سے بظاہر یہ استدلال ممکن ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے باوجود اس بات کے کہ گواہ صرف عورتیں تھیں، آپ نے ان کو گواہی کے لیے طلب فرمایا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ زنا کے کیس میں عورت کی گواہی قابلِ قبول ہے، کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ یہ فرما دیتے کہ مرد گواہ پیش کرو، عورتوں کو بطورِ گواہ پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن اول تو یہ واقعہ بالکل بے حوالہ ہے۔ اس کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے۔ اگر اس قسم کے واقعات کو اہمیت دی جائے گی تو عورت کی گواہی کے ردّ کیے جانے کے واقعات بھی تصنیف کر کے کتابی شکل میں چھاپے جا سکتے ہیں اور پھر بطورِ ماخذ ان کو پیش کیا جا سکتا ہے، اس لیے دلائل کی دنیا میں ایسے مَن
Flag Counter