Maktaba Wahhabi

16 - 358
لیکن اُمتِ مسلمہ کے اس اتفاقی نظریے اور اجماعی عقیدے کے با وصف ہر دور میں ایسے افراد کا وجود رہا ہے، جن کا مشن حدیثِ نبوی کے متعلق شبہات کا اظہار کرکے عامۃ الناس میں شکوک کی آبیاری رہا ہے، تاکہ وہ احکامِ شریعت کے من پسند معانی تراش سکیں اور قرآنِ مجید کی خودساختہ تعبیر و تشریح کر سکیں، اور اُن کی بے راہ روی اور آزاد خیالی کے سامنے تفسیرِ نبوی اور حدیث و سنت رکاوٹ نہ بن پائے۔ لیکن اس ساری تگ و تاز کے باوجود بھی اسلامی تاریخ میں کسی ایک بھی ایسے گروہ اور فرقے کا نشان نہیں ملتا، جس نے کلیتاً حدیثِ نبوی کی شرعی حجیت اور دین کے بنیادی مصدر ہونے کا انکار کیا ہو۔ یہ شقاوت صرف برصغیر کے دورِ غلامی میں چند حرماں نصیبوں کے حصے میں آئی، جنھوں نے ملتِ اسلامیہ کے متفقہ عقیدے سے انحراف کرتے ہوئے حدیثِ نبوی کی حجیت سے یکسر انکار کر دیا، بلکہ وہ پیغمبرِ اسلام کو ان کے خداوندی فریضے، قرآنِ مجید کی تشریح و تبیین، سے معزول کر کے خود اس پر قابض و براجمان ہوگئے اور قرآن کی مَن پسند تشریح کر کے اسے بازیچۂ اطفال بنا کر رکھ دیا، بنابریں ان میں سے ہر ’’مجتہد‘‘ کلامِ الٰہی کی اپنی ہی تشریح کرتا ہے اور اسے ہی واجب التسلیم دینی و شرعی حکم قرار دیتا ہے۔ ان لوگوں کے ایسے اجتہادات میں باہم اتنا شدید اختلاف ہے کہ احادیث و روایات کا اختلاف اس کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر حدیثِ نبوی سے قطع نظر اپنی عقل و دانش سے قرآنِ مجید کی تشریح و تفسیر کرنے والا یہ گروہ قرآنی حکم، اقامتِ صلاۃ کے معنی و مطلب پر آج تک باہم متفق نہیں ہوسکا۔ یہ امر (حدیثِ نبوی کا کلی انکار) بھی دراصل اَعلامِ نبوت میں سے ایک حقیقی نشانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا پیغمبر ہونے کی واقعاتی دلیل ہے، کیوں کہ
Flag Counter