Maktaba Wahhabi

153 - 358
لفظ سے بیان کیا گیا ہے اور جو بات ’’رُوِیَ‘‘ یا ’’قِیْلَ‘‘ سے بیان کی جاتی ہے، وہ بے سروپا سمجھی جاتی ہے، کیوں کہ اس کا راوی ہی مجہول، یعنی نامعلوم ہوتا ہے۔ خود غامدی صاحب کا موقف بھی ان الفاظ کے بارے میں یہی ہے، جو ہم پہلے نقل کر آئے ہیں۔[1] جب وہ خود ’’رُوِيَ‘‘ یا ’’قِیْلَ‘‘ سے مروی بات کو مردود اور ناقابلِ اعتبار سمجھتے ہیں تو یہاں ایسے قول کو نقل کرنے کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ غامدی صاحب کا کوئی ایک موقف نہیں، کوئی اصل اور ضابطہ نہیں۔ ان کے نظریے اور زعمِ باطل کے خلاف بخاری و مسلم کی روایت بھی ہو تو وہ بھی ان کو (نعوذ باللّٰه ) ’’بے ہودہ روایت‘‘ یا ’’منافق کی گھڑی ہوئی‘‘ نظر آتی ہے اور جس قول سے ان کی مطلب بر آری ہوتی ہو تو وہ چاہے کیسا بھی گرا پڑا اور ناقابلِ اعتبار ہو، وہ ان کے نزدیک وحیِ الٰہی کی طرح معتبر ہے۔ ذرا غور کیجیے! یہ قولِ عمر، قولِ عمر ہو سکتا ہے؟ جس میں قرآن کے بجائے اشعارِ جاہلیت کو گمراہی سے بچاؤ کا ذریعہ بتلایا گیا ہے اور حدیثِ رسول کے بجائے ان اشعارِ جاہلیہ کو قرآنِ کریم کی تفسیر اور اس کے معانی کے دریچے کھولنے والے باور کرایا گیا ہے؟ کیا واقعی سیدنا عمر کے نزدیک قرآن و حدیث کے مقابلے میں اشعارِ جاہلیت کی اتنی اہمیت ہو سکتی ہے؟ یقینا نہیں ہوسکتی، ہر گز نہیں ہوسکتی۔ یہ فراہی گروہ جیسے باطل نظریات کا ڈسا ہوا کوئی شیطان صفت شخص ہی ہے جس نے یہ بات گھڑ کر سیدنا عمر کی طرف منسوب کر دی ہے۔ اس کے مقابلے میں حدِ رجم کے قرآنی حکم ہونے کے بارے میں ان کا خطبہ صحیح بخاری میں صحیح ترین سندوں کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ اس کی بابت
Flag Counter