Maktaba Wahhabi

127 - 358
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے، جو اہلِ اسلام کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ واضح دلیل ہے، جس میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شادی شدہ زانیوں کے لیے رجم اور غیر شادی شدہ کے لیے کوڑے ہیں، لیکن اس روایت میں سو کوڑوں کے ساتھ جلا وطنی کی اور رجم کے ساتھ کوڑوں کی سزا کا بھی ذکر ہے۔ اس ظاہری تضاد کو بعض دوسری روایات اور خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے دور کر دیا کہ رجم کے ساتھ آپ نے عملاً کوڑوں کی سزا نہیں دی۔ اسی طرح کنوارے کے لیے کوڑوں کے ساتھ جلاوطنی کی سزا کو بھی دوسری روایات کی روشنی میں تعزیر کے زمرے میں رکھ کر حالات و ضروریات کے مطابق حاکمِ وقت کے لیے گنجایش رکھی ہے کہ وہ چاہے تو جلا وطنی کی سزا دے دے، ورنہ کوڑوں کی سزا ہی کافی ہوگی۔ اس طرح نہایت آسانی سے روایات میں سزاؤں میں کمی بیشی کا جو مسئلہ ہے، جس کو غامدی صاحب تناقض باور کرا کے سب کو ناقابلِ اعتبار قرار دے رہے ہیں، آسانی سے حل ہوجاتا ہے اور تعارض اور تناقض باقی نہیں رہتا۔ اس کو محدثین کی اصطلاح میں ’’جمع و تطبیق‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اور بھی بعض مسائل کی روایات میں اس طرح کے ظاہری تعارض کو، بلکہ قرآنِ کریم کی بھی بعض آیات کے ظاہری تعارض کو دور کیا گیا ہے، لیکن ائمۂ سلف اور فقہا و محدثین نے کبھی یہ روش اختیار کر کے یہ نہیں کہا کہ یہ روایات باہم متناقض ہیں، یا یہ آیاتِ قرآنیہ باہم متعارض ہیں، اس لیے یہ ردّی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہیں، ان پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر غامدی صاحب اپنے اس دعوے میں سچے ہوتے کہ ’’میرے اور ائمہ سلف کے موقف میں بال برابر فرق نہیں ہے‘‘ تو وہ کبھی ان روایاتِ رجم کو اپنی سخن سازیوں کے ذریعے سے، ان میں بے معنی اشکالات پیدا کر کے اور اُن کو غلط رنگ دے کر اور نہایت
Flag Counter