Maktaba Wahhabi

73 - 440
لے کر یہ کہتا ہے کہ اس سے مراد ہے: اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے مشابہ ہے اور خالق و مخلوق کی سماعت و بصارت میں کوئی فرق نہیں۔ ہم کہتے ہیں اللہ کی پناہ یہ تو مُشَبّہ ہے۔ کیونکہ اس نے آیت کے پہلے حصے ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ چھوڑ دیا اور آخری حصے کو لے لیا۔ اس کے برعکس جو شخص پہلے حصے کو لے لیتا ہے اور آخری کو چھوڑ دیتا ہے وہ مُعَطِّل ہے۔ جبکہ ایک مومن اور توحید پرست وہ ہے جو مکمل آیت کو لیتا ہے اور کہتا ہے ﴿کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾ (آل عمران:۷) ’’سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔‘‘ ***** وَلَا نَزِیْلُ عَنْہُ صِفَۃً مِّنْ صِفَانِہِ لِشَنَاعَۃٍ شُنِّعَتْ وَلَا نَتَعَدّی الْقُرْاٰنَ وَالْحَدِیْثَ وَلَا نَعْلَمُ کَیْفَ کنہ ذَالِکَ إِلَّا بِتَصْدِیْقِ الرَّسُوْلِ وَتَثْبِیْتِ الْقُرْاٰنِ۔ ترجمہ…: ہم کسی طعنہ دینے والے کے طعنے سے ڈرتے ہوئے اس کی صفات میں سے کسی میں کمی نہیں کرتے، نہ ہم قرآن وسنت سے آگے بڑھتے ہیں، ہم اس کی کنہ کو رسول اللہ کی تصدیق اور قرآن کی تثبیت کے بغیر نہیں جان سکتے۔ تشریح…: اور ہم بھی وہی صفات ثابت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے ثابت کی ہیں، خواہ معطلہ ہمیں برا بھلا کہتے رہیں اور ہمیں مشبہہ، مجسمہ، حشویہ ہونے کا طعنے دیں۔ کیونکہ راہ راست سے ہٹے ہوئے لوگ، اہل توحید اور اسماء و صفات کا اثبات کرنے والوں کو یہی القاب دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم ان باتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کتاب و سنت سے چمٹے رہیں گے اور ان کا طرح طرح کے القاب دینا ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ ہم تو محض اپنے پروردگار کو راضی کرنا چاہتے ہیں نہ کہ مخلوق کو۔ قولہ: ولا نتعدی القرآن… یہ گزشتہ بات کی ہی تاکید ہے کہ اسماء و صفات توقیفی ہیں۔ ایسے ہی آخرت اور قبر و غیرہ کے معاملات علم غیب میں شامل ہیں۔ لہٰذا ہم بلا دلیل ان مسائل میں کوئی بات نہیں کرسکتے
Flag Counter