Maktaba Wahhabi

67 - 440
لہٰذا ولا معنی سے وہ معنی مراد ہے جو گمراہ لوگ مراد لیتے ہیں اور وہ ہے تاویل۔ مثال کے طور پر لفظ ’’ید‘‘ کی تاویل قدرت کے ساتھ، مجیئی کی تاویل اس کے حکم کے آنے کے ساتھ اور نزول کی تاویل اس کے حکم کے نازل ہونے کے ساتھ۔ یہ وہ معانی ہیں جو انھوں نے بیان کیے ہیں لیکن ہم ان کی نفی کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ معانی نہیں جو اللہ کی مراد ہیں۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس معنی کی نفی نہیں کرنا چاہتے جو لغت عرب میں کلام کا معنی ہوتا ہے۔ بلکہ وہ تو اس بدعتی معنی کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہ بدعتیوں کا ردّ کر رہے ہیں۔ اور اس معنی کا ردّ کر رہے ہیں جو بدعتیوں نے ایجاد کیا ہے اور ان کا مقصود ہے۔ لہٰذا اس عبارت میں ایسے شخص کی کوئی دلیل نہیں جو حق کو مشکوک کرنا چاہتا ہو اور کہتا ہو کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ مفوض [1] تھے کیونکہ انھوں نے کہا ہے: ’’لامعنی‘‘ اور یہ مفوضہ کا طریقہ ہے۔ حالانکہ امام احمد رحمہ اللہ مفوضہ میں سے نہیں تھے۔ آپ رحمہ اللہ صرف کیفیت میں تفویض کرنے والے ہیں۔ اس لیے کہ کیفیت میں تفویض واجب ہے۔ رہا لغوی معنی تو وہ واضح ہوتا ہے اس لیے اس میں تفویض نہیں کی جائے گی بلکہ اس کی وضاحت اور تفسیر کی جائے گی۔ (۵)… ہم بدعتیوں کی طرح مخالف عقل نصوص کی تردید نہیں کرتے کیونکہ وہ تو نصوص کی تردید کرتے اور عقل کو حاکم بناتے ہیں۔ (۶)… نبی کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی لائے ہیں وہ حق ہے۔ اس میں کسی قسم کی غلطی، گمراہی اور تلبیس نہیں اور وہ اپنی حقیقت پر قائم بالکل حق ہے۔ کیونکہ اسے مخلوق کا سچا ترین انسان لے کر آیا ہے جو اپنی خواہش کے مطابق نہیں بولتا، جو امین اور مامون ہے۔ لہٰذا وہ جو بھی لایا ہے، اپنے ظاہر اور حقیقت میں حق ہے۔
Flag Counter