Maktaba Wahhabi

267 - 440
تشریح…: (۱) ایمان کی گذشتہ تعریف کی ایک دلیل یہ حدیث مبارکہ بھی ہے۔ ((اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً -: أَعْلَاہَا: قَوْلُ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَدْنَاہَا إِمَاطَۃُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ، وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْإِیْمَانِ۔)) ’’ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں۔ ان میں سے سب سے بلند مرتبہ لا الہ الا اللہ کا اقرار ہے۔ اور سب سے کم درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘[1] اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قول، عمل اور اعتقاد کو ایمان کا نام دیا ہے کیونکہ لا الہ الا اللہ کہنا قول ہے۔ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا عمل اور حیاء اعتقاد ہے۔ حیاء کو ایمان کی شاخ اس لیے کہا کیونکہ اس کا تعلق دل سے ہے اور ایمان بھی قلبی اعمال میں سے ہے۔ یہ حدیث اہل سنت والجماعت سلفی اہل حق کے قول کی دلیل ہے کہ ایمان: قول، عمل اور اعتقاد سے مرکب ہے۔ اور اس حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ایمان کا ایک اعلیٰ مرتبہ بھی ہے اور ادنیٰ مرتبہ بھی، جو ایمان کی کمی و بیشی کی دلیل ہے۔ ***** وَقَالَ تَعَالَی: ﴿فَزَادَتْہُمْ اِیْمَانًا﴾ (التوبۃ:۱۲۴) (۱) وقال: ﴿لِیَزْدَادُوْٓا اِِیْمَانًا﴾ (الفتح:۴) (۲) ترجمہ…: اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔‘‘ نیز فرمایا: تاکہ ان کا ایمان بڑھ جائے۔‘‘ تشریح…: (۱) یہ آیت مبارکہ ایمان میں اضافے کی دلیل ہے۔ اس میں مُرجئہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان ایک ہی حالت میں رہتا ہے۔ جبکہ درست بات یہ ہے کہ اس میں فرق آتا رہتا ہے۔ اس میں کمی و بیشی ہوتی ہے اور ﴿فَزَادَتْہُمْ اِیْمَانًا﴾ کے الفاظ اس مسئلہ میں
Flag Counter