Maktaba Wahhabi

256 - 440
۲… حقیقت عرفی ۳… حقیقت لغوی لہٰذا یہاں ایمان کی تعریف میں ہم اسے ایک حقیقت شرعی کہیں گے نہ کہ حقیقت لغوی یا حقیقت عرفی۔ مثلاً لغت میں صلوٰۃ محض دعا کو کہتے ہیں۔ لیکن شریعت میں اس سے مراد یہ ہے کہ: ’’معروف صلوٰۃ (نماز) جو تکبیر سے شروع کی جاتی ہے اور سلام پر ختم کی ہوتی ہے۔ یعنی اقوال و افعال کا وہ مجموعہ جسے تکبیر سے شروع کیا جاتا اور سلام پر ختم کیا جاتا ہے اسے ’’اَلصّلٰوۃُ … نماز‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ اسی طرح روزہ، زکوٰۃ، حج۔ یہ تمام شرعی حقائق ہیں اور ایمان بھی ایک شرعی حقیقت ہے۔ اور اس سے مراد قول باللسان، اعتقاد بالقلب اور عمل بالجوارح ہے۔ قول باللسان سے مراد شہادتین کا اقرار، ذکر الٰہی اور تسبیح و تہلیل ہیں۔ اعتقاد بالقلب سے مراد یہ ہے کہ جس بات کا آپ زبان سے اقرار کر رہے ہیں آپ کا دل بھی اس کی تصدیق کرے۔ اور عمل بالجوارح سے مراد یہ ہے کہ انسان کے اعضاء اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں استعمال ہوں اور گناہوں سے رکے رہیں۔ لہٰذا ایمان محض زبان سے انکار کا نام نہیں اور نہ ہی محض تصدیق قلبی یا عقیدہ و اقرار کے بغیر محض عمل کا نام ہے۔ بلکہ ان تینوں شروط کا پایا جانا ضروری ہے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ یَزِیْدُ بِالطَّاعَاتِ: سے مراد یہ ہے کہ جب انسان نیکی کے کام کرتا ہے تو اس کا ایمان بڑھتا ہے۔ وَیْنُقُص بِالْمَعْصِیَۃِ: اور گناہ کرنے سے ایمان میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ایمان کی کمی و بیشی کی قرآن سے دلیل ملتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ
Flag Counter