Maktaba Wahhabi

244 - 440
کے تحت کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ واویلا کرنے لگ جاتے اور ناراض ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً گناہ کے حقدار بن جاتے ہیں۔ الغرض وہ یہ دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر و تحمل عطا کرکے اپنی قضاء و قدر پر راضی رکھ کر بری تقدیر سے بچا۔ یہی ان کے لیے انجام کار بہتر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مومن کے لیے وہی فیصلہ کرتے اور مقدر کرتے ہیں جو اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ ((إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ عَلَیْہَا، فَکَانَ ذٰلِکَ خَیْرًا، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ عَلَیْہَا، وَکَانَ ذٰلِکَ خَیْرًا لَہٗ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ۔)) [1] ’’اگر اسے خوشی ملتی ہے، وہ اس پر شکر کرتا ہے تو یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے، وہ اس پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور یہ خیر صرف مومن کو ہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘ حدیث میں محل شاہد ’’شرّ ما قضیت‘‘ کے الفاظ ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ شر بھی قضاء و قدر میں داخل ہے۔ نیز یہ کہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنا مستحب ہے کہ اے اللہ! مجھے بری قضاء و قدر سے بچا اور تقدیر کو میری گمراہی اور بے صبری کا سبب نہ بنا۔ مجھے اپنی تقدیر پر ناراض ہونے اور اسے ناپسند جاننے سے بچا تاکہ یہ میری بدبختی کی بجائے میری نیک بختی کا سبب بنے۔ ***** وَلَا نَجْعَلُ قَضَائَ اللّٰہِ وَقَدْرَہُ حُجَّۃً لَنَا فِیْ تَرْکِ أَوَامِرِہِ وَاجْتِنَابِ نَوَاھِیْہِ (۱) بَلْ یَجِبُ أَنْ نُؤْمِنَ وَنَعْلَمَ أَنَّ لِلّٰہِ عَلَیْنَا الْحُجَّۃُ بِإِنْزَالِ الْکُتُبِ وَبِعْثَۃِ الرُّسُلِ۔ ترجمہ…: اور ہم اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کرنے اور اس کی نواہی سے بچنے کے بارے
Flag Counter