Maktaba Wahhabi

242 - 440
نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔ ‘‘ یہی لوگ صابر ہیں۔ ﴿الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ،﴾ (البقرہ:۱۵۶) ’’وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں: بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ‘‘ یہ لوگ جانتے ہیں کہ مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ اس کا آنا ضروری ہے اور وہی ہوتا ہے جو تقدیر میں لکھا جاچکا ہے۔ چنانچہ وہ صبر کرتے ہیں۔ محاسبہ نفس کرتے ہیں اور آہ و بکا اور ناراضگی کا اظہار نہیں کرتے۔ بعض اوقات یہ مصیبت کسی گناہ، غلطی یا حکم الٰہی کی مخالفت کی سزا ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ لوگ محاسبہ نفس اور توبہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍ﴾ (الشوری:۳۰) ’’اور جو بھی تمھیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے در گزر کر جاتا ہے ۔‘‘ چنانچہ ایک بندۂ مومن آہ و بکا اور ناراضگی کا اظہار کرنے کی بجائے صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ اس کے گناہوں کی وجہ سے ہی پہنچتی ہے۔ چنانچہ یہ صبر بھی اس کے لیے نیکی بن جاتا ہے اور انجام کار یہ مصیبت بھی کسی بھلائی کا ہی پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ الغرض یہ اسی کے فائدہ میں ہوتی ہے ۔ جبکہ تقدیر پر اظہار ناراضگی اور واویلا کرنے والا نہ مصیبت سے بچتا ہے اور نہ ہی اسے اس پر اجر ملتا ہے۔ بلکہ وہ اس واویلے کی وجہ سے گناہگار ہوجاتا ہے۔ (ہم ایسے رویے
Flag Counter