Maktaba Wahhabi

199 - 440
کی قسم کھائی کہ یہ ستارے کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتے۔ بلکہ یہ تو محض اللہ تعالیٰ کی (بے شمار) مخلوقات میں سے (ایک مخلوق) ہیں۔ ﴿وَاِِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ﴾ ’’اور بلاشبہ یہ یقینا ایسی قسم ہے کہ اگر تم جانو تو بہت بڑی ہے۔‘‘ (۲)… بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’مواقع النجوم‘‘ سے مراد قرآن کریم کے حصے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی بعثت سے وفات تک واقعات اور حوادث کے اعتبار سے تھوڑا تھوڑا کرکے ۲۳ سال میں نازل کیا گیا تھا۔ اس کا کچھ حصہ مکہ میں نازل ہوا اور کچھ مدینہ منورہ میں۔ ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً ط﴾ (الفرقان:۳۲) ’’اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، یہ قرآن اس پر ایک ہی بار کیوں نہ نازل کر دیا گیا؟۔‘‘ یہ بھی ان کا ایک گھٹیا اعتراض ہے۔ حالانکہ اہم بات یہ نہیں کہ قرآن ایک ہی بار نازل ہوا یا تھوڑا تھوڑا کرکے۔ بلکہ اہم بات یہ ہے کہ تم قرآن کی پیروی کرتے ہو یا نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا، وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا،﴾ (الفرقان:۳۲تا۳۳) ’’اسی طرح ( ہم نے اتارا) تاکہ ہم اس کے ساتھ تیرے دل کو مضبوط کریں۔ اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا، خوب ٹھہر کر پڑھنا۔ اور وہ تیرے پاس کوئی مثال نہیں لاتے مگر ہم تیرے پاس حق اور بہترین تفسیر بھیج دیتے ہیں۔‘‘ یعنی قرآن کریم کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ یہ انداز امت کے لیے زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ اگر تمام احکام اور اوامر و نواہی یکبارگی نازل
Flag Counter