’’بنی آدم! اگر آپ کے پاس آپ میں سے رسول آئیں اور آپ پر میری آیات تلاوت کریں ۔‘‘ اس آیت میں قیامت تک نسل آدم کو خطا ب ہے، مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ ہر زمانے میں ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لَیْسَ بَیْنِي وَبَیْنَ عِیسٰی نَبِيٌّ ۔ ’’میرے اور عیسی علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ۔‘‘ اس آیت میں عیسی علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک کے درمیانے عرصے کے لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے، تو کیا کوئی نبی آیا؟ اگر کوئی اس آیت سے یہ قاعدہ استنباط کرے کہ ہر زمانے میں نبی کا آنا ضروری ہے، تو اس درمیانے عرصے میں نبی کیوں نہیں آیا؟ ثابت ہوا کہ یہ قاعدہ اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا، بلکہ ایک نبی بعد کے کئی زمانوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قیامت تک کے لئے کافی ہوگئی ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ 2. فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿اَللّٰہُ یَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ﴾(الحجّ : 75) ’’اللہ تعالیٰ فرشتوں اور لوگوں میں سے جسے چاہتا ہے، رسول منتخب کرتا ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں بیان ہے کہ نبی اور رسول کا انتخاب اللہ ہی کرتا ہے، یہ بیان نہیں کہ ہر زمانے میں نبی پیدا ہوتا رہے گا، اس نے جب تک چاہا انبیا کا انتخاب کیا، بعد میں انبیا کا سلسلہ ختم کردیا۔ یہ قرآن کی دیگر آیات، احادیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ |