ختم ہو گیا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے مہر ہیں ۔‘‘ (جمع الوسائل في شرح الشّمائل : 1/27) علامہ مرتضی زبیدی رحمہ اللہ (1205ھ) لکھتے ہیں : اَلْخَاتَمُ : آخِرُ الْقَوْمِ کَالْخَاتِمِ، وَمِنْہُ قَوْلُہٗ تَعَالٰی : ﴿وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ﴾ أَيْ آخِرَہُمْ . ’’خَاتِم اور خَاتَم دونوں ہم معنی ہیں : ’’قوم کا آخری فرد۔‘‘ اسی سے اللہ کا یہ فرمان ہے : ﴿وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ﴾یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔‘‘ (تاج العروس، مادۃ خ ت م) انتباہ : بعض جگہوں پہ خاتم الشعرا، خاتم الکرام ، خاتمۃ المجاہدین، خاتمۃ الحفاظ، خاتمۃ الفقہاء، خاتمۃ المحدثین اور آخر الشعراء وغیرہ کے القاب استعمال ہوئے ہیں ،اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ خاتم اور آخر سے مراد آخری نہیں بلکہ فضیلت والا ہوتاہے ۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط اور لغت عرب سے ناواقفی پر دلالت کناں ہے، ہر لفظ کا ایک ظاہری معنی ہوتا ہے اور ایک مجازی۔ خاتم کا حقیقی معنی آخری ہے اور مجازاً اس میں کئی معانی داخل ہیں ، اب قرائن بتائیں گے کہ مجازی معنی کب مراد لیا جائے اور حقیقی معنی کب مراد لیا جائے؟ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتم کا حقیقی معنی مراد لیا ہے، فرمایا : لَانَبِیَّ بَعْدِي ’’میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ |