کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو عمر بن خطاب ہوتے۔‘‘ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہی نبی نہیں ، تو کوئی دوسر ابھی نبی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (المَسالک في شرح موطّأ مالک : 3/293) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : قُولُوا : خَاتَمُ النَّبِیِّینَ، وَلَا تَقُولُوا : لَا نَبِيَّ بَعْدَہٗ ۔ ’’خاتم النبیین، کہو، یہ نہ کہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ۔‘‘ (مصنّف ابن أبي شیبۃ : 9/109) قول منقطع (ضعیف) ہے، جریر بن حازم کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع و لقا نہیں ہے۔ علما نے اس کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ کوئی نبی شریعت محمدیہ کو منسوخ کرنے والا نہیں آئے گا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے والے نبی سیدنا عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے اور شریعت محمدیہ پر ہی عمل کریں گے، کوئی نئی شریعت نہیں لائیں گے۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کی بعثت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو منسوخ کردیا، جس طرح یہ عقیدہ رکھنا کفر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی شریعت کو منسوخ کرنے والا کوئی نبی آسکتا ہے، اسی طرح یہ عقیدہ رکھنا بھی کفر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی پیدا ہو سکتا ہے، جو آپ کی شریعت کو منسوخ نہ کرے، بلکہ شریعت محمدیہ کا ہی پیرو ہو۔ کیا ابراہیم رضی اللہ عنہ کو نبوت ملنا ممکن تھا؟ امکان نبوت کی بحث میں ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس حدیث کو لایا جاتا |