’’حدیث کا معنی یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے نبوت کا فیصلہ ہوتا، تو ابراہیم رضی اللہ عنہ کا زندہ رہنا ممکن ہوتا، لیکن نبوت کسی کو نہیں ملنی۔ ابراہیم کے زندہ رہنے کو ان کی نبوت سے مشروط کرنے کا مطلب ہے کہ انہیں زندہ رہنا ہی نہیں تھا۔ اس سے مراد ابراہیم رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان بھی ہو سکتا ہے، مطلب یہ کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی ہونا ہوتا، تو ابراہیم رضی اللہ عنہ اس کے زیادہ حق دار تھے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنی ہی نہیں تھی اس لئے وہ زندہ نہیں رہے، اس کا یہ معنی نہیں کہ ہر نبی کے بیٹے کا نبی ہونا لازم ہے، اگر ایسا ہوتا، تو ہم سب نبی ہوتے، کیوں کہ ہم سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا نوح علیہ السلام کی اولاد ہیں ۔‘‘ (حاشیۃ السّندھي علی ابن ماجہ : 1/459) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مثال : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اپنی مثال سیدنا ہارون اور سیدنا موسیi سے بیان کی ہے، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : خَلَّفَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَۃِ تَبُوکَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ : أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُّوسٰی؟ غَیْرَ أَنَّہٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ۔ ’’غزوۂ تبوک کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو (مدینہ میں ) اپنا جانشین مقرر کیا، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ فرمایا |