کے برابر رکھا ہے، سوائے مسجد حرام کے۔‘‘ (حاشیۃ السّندي علی النّسائي : 2/35) علامہ زمخشری (538ھ) لکھتے ہیں : مَعْنٰی کَوْنِہٖ آخِرَ الْـأَنْبِیَائِ أَنَّہٗ لَا یُنَبَّأُ أَحَدٌ بَّعْدَہٗ، وَعِیسٰی مِمَّنْ نُبِّیَٔ قَبْلَہٗ، وَحِینَ یَنْزِلُ یَنْزِلُ عَامِلًا عَلٰی شَرِیعَۃِ مُحَمَّدٍ، مُصَلِّیًا إِلٰی قِبْلَتِہٖ، کَأَنَّہٗ بَعْضُ أُمَّتِہٖ ۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی، جب کہ عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی مل چکی ہے، جب عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے، تو شریعت محمدیہ کے پیرو بن کر نازل ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں گے، گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہوں ۔‘‘ (تفسیر الزّمخشري : 3/544۔545) لَا ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ : فرمان نبوی ہے: لَا ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ ۔ ’’فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں ۔‘‘ (صحیح البخاري : 2825) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : اِنْقَطَعَتِ الْہِجْرَۃُ مُنْذُ فَتَحَ اللّٰہُ عَلٰی نَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ ۔ |