’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مکہ فتح ہوا، تو ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔‘‘ (صحیح البخاري : 3080) یہاں ہجرت سے مرا د مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہے، کیوں کہ فتح مکہ کے بعد مکہ سے کہیں بھی ہجرت نہیں ہے، کیوں کہ مکہ دارالاسلام ہے، دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت تا قیامت باقی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) لکھتے ہیں : لَا ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَإِنَّمَا کَانَ کَذٰلِکَ لِأَنَّ مَکَّۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ صَارَتْ دَارَ إِسْلَامٍ فَالَّذِي یُہَاجِرُ مِنْہَا لِلْمَدِینَۃِ إِنَّمَا یُہَاجِرُ لِطَلَبِ الْعِلْمِ أَوِ الْجِہَادِ لَا لِلْفِرَارِ بِدِینِہٖ بِخِلَافِ مَا قَبْلَ الْفَتْحِ ۔ ’’فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے، فتح کے بعد مکہ دارالاسلام بن گیا ہے، تو اب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت طلب علم یا جہاد کے لئے ہوگی، نہ کہ دین بچانے کے لئے، جیسا کہ فتح مکہ سے پہلے تھی۔‘‘ (فتح الباري شرح صحیح البخاري : 10/185) سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی ہجرت کے ساتھ ختم نبوت کا موازنہ : سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : اِسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْہِجْرَۃِ، فَقَالَ لَہٗ : یَا عَمِّ، أَقِمْ مَکَانَکَ الَّذِي أَنْتَ بِہٖ فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَخْتِمُ بِکَ الْہِجْرَۃَ کَمَا خَتَمَ بِيَ النُّبُوَّۃَ ۔ ’’سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کی اجازت |