Maktaba Wahhabi

85 - 200
’’جس کی نماز عید کی جماعت رہ جائے وہ پھر چار رکعتیں پڑھے۔‘‘ امام اسحق کہتے ہیں کہ اگر دوسری جماعت کے ساتھ پڑھے تو دو رکعتیں اور اگر کوئی اکیلے پڑھے تو پھر چار پڑھے۔ امام نووی اور احمد بن حنبل رحمہما اللہ کا بھی یہی مسلک ہے کہ اکیلے پڑھے تو چار رکعتیں پڑھے۔ ان حضرات نے نماز عید کی قضا کو نماز جمعہ قضا ہوجانے پر محمول کیا ہے کہ اگر نماز جمعہ قضا ہوجائے تو اس پر نماز ظہر فرض ہوجاتی ہے جبکہ عید کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ ایسے شخص کو اختیار ہے، وہ چاہے تو قضا کرے اور نہ چاہے تو نہ کرے۔ قضا کرنے کی صورت میں چاہے تو چار رکعتیں پڑھ لے اور چاہے تو دو پڑھ لے۔ لیکن اس سلسلے میں صحیح مسلک یہی ہے کہ دو رکعتیں ہی پڑھے اور باقاعدہ تکبیرات زوائد بھی کہے جیسا کہ امام عطاء رحمہ اللہ (تابعی) کا ارشاد صحیح بخاری میں تعلیقاً بالجزم اور احکام العیدین للفریابی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں موصولاً مروی ہے: (( إِذَا فَاتَہُ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ )) [1] ’’جس کی نماز عید فوت ہو جائے وہ دو رکعتیں پڑھے۔‘‘ جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ الفاظ بھی ہیں: ’’وَیُکَبِّرُ‘‘ اور تکبیریں بھی کہے۔ ابن ابی شیبہ کے اس لفظ نے یہ بھی وضاحت کردی ہے کہ نماز عید کی قضا بالکل اسی طرح ہوگی جیسی وہ دراصل ہے نہ کہ اس طرح کہ جیسے دو عام نفلی رکعتیں ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں نماز عید کی قضا کی تائید بعض دیگر آثار صحابہ و تابعین سے بھی ہوتی ہے جس میں سے ایک صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف ابن
Flag Counter