Maktaba Wahhabi

84 - 200
کو تو واجب قرار دیتا ہو اور خطبہ کو بھی واجب کہے بلکہ اس حدیث کی رو سے خطبہ دینا اور خصوصاً خطبہ سننا سنت ہے۔ امام ابو البرکات ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی ’’المنتقی‘‘ میں یہی قول ہے کہ خطبہ سنت ہے۔[1] علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سننے یا چلے جانے میں رخصت اور اختیار دیا تھا۔[2] اگرنماز عید کی جماعت نہ ملے؟ اگر کسی کے عید گاہ پہنچنے پر جماعت ہو چکی ہو تو اسے اکیلے یا دوسرے رہ جانے والے لوگوں کے ساتھ باجماعت نماز عید ادا کرنی چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک باب قائم کیا ہے: ’’بَابٌ إِذَا فَاتَہُ الْعِیْدُ یُصَلِّيْ رَکْعَتَیْنِ‘‘ کہ اگر کسی کی نماز عید فوت ہوجائے تو وہ دو رکعتیں پڑھ لے۔ یہ حکم مردوں ہی کی طرح عورتوں کے لیے اور ایسے ہی گھروں اور دیہات میں رہنے والوں کے لیے بھی ہے۔[3] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ اس ترجمہ (تبویب) میں دو حکم ہیں۔ ایک یہ کہ اگر کسی کی نماز عید اضطرار یا اختیار کسی بھی وجہ سے رہ جائے تو اسے پڑھ لینا مشروع ہے، اور دوسرا حکم یہ ہے کہ وہ دو رکعتیں اسی طرح ہی پڑھی جائیں گی جیسے کہ در اصل وہ ہیں؛ یعنی دو رکعتیں۔ البتہ سنن سعید بن منصور میں صحیح سند سے، اسی طرح معجم طبرانی کبیر اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( مَنْ فَاتَہُ الْعِیْدُ مَعَ الْإِمَامِ فَلْیُصَلِّ اَرْبَعًا )) [4]
Flag Counter