Maktaba Wahhabi

40 - 200
فرض کفایہ، مالکیہ کے نزدیک واجب اور دیگر اہل علم کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے۔[1] عہدحاضر کے محققین میں سے حضرت العلام مولانا عطا ء اللہ حنیف رحمہ اللہ نے اس کے وجوب کی طرف اپنا رجحان فرمایا ہے۔[2] علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا بھی اسی طرف میلان ہے اور اسے ہی انہوں نے حق قرار دیا ہے[3] اور نواب صدیق حسن خان اور امام شوکانی رحمہ اللہ کا اختیار بھی یہی ہے۔ [4] ان تصریحات سے نمازِ عید کی اہمیت واضح ہوگئی اور معلوم ہوگیا کہ نماز عید میں شامل ہونا سخت ضروری ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو عید کی رات کو الٹے سیدھے کھیل تماشوں میں گزار کر رات گئے سوتے ہیں اور صبح نماز عید میں شریک ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ جو نماز عید میں شرکت نہ کر سکا ، اس کا نماز فجر میں شریک ہونا ویسے ہی قرین قیاس نہیں جو بالاتفاق فرض ہے۔ یوم عید سے پہلی رات: یہاں یہ بات بھی پیش نظر رکھیں کہ عید کی رات کو محض کھیل تماشے میں گزار دینا درست نہیں کیونکہ شب عید بھی عبادت کی رات ہے۔ اس رات میں عبادت کی فضیلت کے بارے میں کئی مرفوع روایات منقول ہیں، جو بلوغ الامانی ترتیب و شرح مسند احمد میں دیکھی جاسکتی ہیں۔[5] لیکن ماہرینِ علم حدیث
Flag Counter