Maktaba Wahhabi

204 - 200
ہر سال ضائع ہوتے ہیں۔ اگر وہ رقمیں فلاں فلاں ادار وں کو مل جائیں تو کیا خوب ترقی ہوگی؟ اسی طرح تلاوتِ قرآن اور خطباتِ جمعہ جیسی عبادات ہی نہیں بلکہ معمولاتِ زندگی اور لوازماتِ حیات مثلاً شادی بیاہ، اکل و شرب، خرید و فروخت حتی کہ سونے کے اوقات میں بھی کانٹ چھانٹ کرنی پڑے گی اور یہی نہیں بلکہ دیگر انسانی ضروریات پر بھی ریسرچ شروع ہوجائے گی۔ ( ہفت روزہ الاسلام، لاہورشمارہ ۲۶، نومبر ۸۶ء، قربانی کا معاشی پہلو، از مولانا عبدالاعلی رحمانی) اندازہ فرمائیں کہ اگر یہ سلسلہ شروع ہوجائے تو منکرین حدیث پرویزیوں اور دوسرے مادہ پرستوں کی گھٹیا سوچ کیا کیا رنگ نہیں دکھلائے گی؟! قربانی کا معاشی پہلو: عقل بیمار کے مالک ان لوگوں کا یہ واویلا بھی سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے کہ قربانیوں پر خرچ آنے والے اموال ضائع ہو جاتے ہیں بلکہ حقیقت اس کے سراسر برعکس ہے کیونکہ انفرادی و اجتماعی قربانیوں میں بہت سے معاشی ، معاشرتی اور قومی و ملی فوائد بھی موجود ہیں، اگر چہ احیائے سنت کے اجر و ثواب اور رضائے الہی کے حصول کے مقابلے میں ان فوائد کی ہمارے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہے لیکن محض ان عقل پرستوں کے الزامی جواب کی خاطر ہم قربانیوں کے مالی و مادی فوائد کا پہلو بھی واضح کیے دیتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ قربانی کے ذریعے کس طرح کے مالی فوائد قوم و ملک کو واپس لوٹا دیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے کتاب الٰہی قرآن کریم شاہد عدل ہے۔ سورہ حج کی آیت (۲۸) کے الفاظ: {لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ} قابل توجہ ہیں، جن میں حج کے فوائد کو {مَنَافِعَ} جمع کے صیغے سے ذکر فرمایا ہے۔ اسی آیت
Flag Counter