Maktaba Wahhabi

87 - 200
(( اَھْلُ السَّوَادِ یَجْتَمِعُوْنَ فِي الْعِیْدِ یُصَلُّوْنَ رَکْعَتَیْنِ کَمَا یَصْنَعُ الْاِمَامُ )) [1] ’’گاؤں والے (جو امام کے ساتھ نماز سے رہ گئے ہوں) وہ جمع ہوکر اسی طرح عید کی دو رکعتیں پڑھیں جیسے امام پڑھتاہے۔‘‘ نیز مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ انھوں نے عید الفطر و عید الاضحی کے بارے میں سفر و حضر والوں کے بارے میں کہا: (( یَجْتَمِعُوْنَ وَیَؤُمُّھُمْ اَحَدُھُمْ )) [2] ’’وہ جمع ہوجائیں اور ان میں سے ایک ان کی امامت کرائے۔‘‘ ان تمام آثار کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ نماز عید کی جماعت سے رہ جانے والے لوگ بھی مل کر اسی طرح نماز عید ادا کریں جیسے امام کے ساتھ ادا کی جاتی ہے اور تکبیریں بھی کہی جائیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ دوسرے دن نمازِ عید: اگر کسی وجہ سے شوال کا چاند رات کو نہ دیکھا جا سکے اور لوگ اگلے روز روزہ رکھ لیں اور دن کے وقت بحالتِ روزہ ثقہ شہادت مل جائے کہ رات چاند دیکھا گیا ہے تو سب لوگوں کو روزہ افطار کردینا چاہیے، اور اگر یہ شہادت زوالِ آفتاب سے کچھ پہلے مل جائے تو اسی دن نماز عید بھی ادا کر لی جائے۔ ہاں اگر شہادت تاخیر سے ملے اور زوال آفتاب کا وقت بھی گزر چکا ہو، جو نماز عید کے لیے آخری وقت ہے تو لوگوں کو اگلے دن عید گاہ میں جا کر اس کے وقت میں عید کی نماز ادا کرنی چاہیے۔
Flag Counter