Maktaba Wahhabi

192 - 200
امام قرطبی، امام شوکانی، علامہ آلوسی، شیخ احمد مراغی اور والا جاہ نواب صدیق حسن خان کی تصریحات پڑھنے سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ قربانی کا تعلق صرف منیٰ میں موجود حجاج ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے تمام افراد کو اس کا حکم فرمایا گیا ہے اور یہ صرف امت اسلامیہ ہی پر نہیں بلکہ پہلی امتوں پر بھی ضروری رہی ہے۔ مذکورہ قرآنی آیات اور تفسیری اشارات کے علاوہ قربانی کے بارے میں مفصل احکام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں قربانی کا عام رواج ہونے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ عمل مبارک کے بارے میں کم وبیش انیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کثیر تعداد میں احادیث مروی ہیں۔ کوئی ایک بھی صحیح تو کیا ضعیف سے ضعیف روایت بھی ایسی نہیں ملتی جس سے پتہ چل سکے کہ قربانی اسلامی شعار اور سنت رسول نہیں یا یہ بتائے کہ قربانی صرف منیٰ میں ہے، باہر کے مسلمانوں پر نہیں۔ پھر عہد نبوی اور دور صحابہ و تابعین کے بعد اسلامی مکاتب فکر کے تمام ائمہ و فقہاء بھی قربانی کی مشروعیت پر متفق ہیں۔ مؤلفین صحاح و سنن اور مسانید و معاجم نے اپنی کتب میں اور مذاہب اربعہ کے فقہاء نے اپنی کتب میں ’’مناسک الحج‘‘ کے ضمن میں ’’باب الھَدْي‘‘ قائم کیا ہے اور دوسری عام قربانیوں کے لیے ’’اضاحی‘‘ یا ’’ضحایا‘‘ یا ’’اضحیۃ‘‘ کے تحت احادیث و آثار جمع فرمائے اور ان کے احکام بیان کیے ہیں۔ ڈیڑھ ہزار سال سے قربانی کے مشروع و مسنون عمل ہونے پر تمام فقہائِ اسلام کا اتفاق و اجماع ہے اور امت اسلامیہ کا عملی تواتر اس پر مستزاد ہے؛ لہٰذا قربانی کی شرعی حیثیت کو مشکوک بنانے کی ناکام کوشش کرنے والوں اور منکرین حدیث و سنت، پرویزی نظریات کے حاملین او رپرویز کی معنوی اولاد کے مسموم
Flag Counter