Maktaba Wahhabi

185 - 200
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی طرف سے قربانی کرنا اور وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تھا تو ہر کسی کے لیے یہ جائز ہوا۔ اس روایت سے استدلال تب درست ہوتا جب یہ صحیح ہوتی جبکہ اسے خود امام ترمذی، حافظ ابن حجر، امام ذہبی، امام منذری، امام ابن حبان، علامہ عبدالرحمن مبارکپوری، علامہ احمد عبد الرحمن البنا اور علامہ عبید اللہ رحمانی رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (دیکھیں: الفتح الرباني: ۱۳/ ۱۰۹، تحقیق المشکاۃ للألباني: ۱/ ۴۶۰، مرعاۃ المفاتیح: ۳/ ۳۵۹) امام ترمذی نے اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ بعض اہل علم اس کے جواز اور بعض عدم جواز کے قائل ہیں۔ امام ابن المبارک فرماتے ہیں کہ مجھے زیادہ محبوب یہ ہے کہ فوت شدگان کی طرف سے قربانی نہ دی جائے بلکہ ان کی طرف سے صدقہ کیا جائے اور اگر قربانی دی جائے تو پھر اس کا گوشت خود نہ کھایا جائے بلکہ سارے کا سارا ہی تقسیم کر دیا جائے۔ علامہ عبدالرحمن مبارک پوری نے لکھا ہے کہ مجھے کوئی ایسی مرفوع اور صحیح حدیث نہیں ملی جو فوت شدگان کی طرف سے قربانی کے جواز پر دلالت کرتی ہو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ والی حدیث ضعیف ہے۔ اگر کوئی شخص کسی فوت شدہ کی طرف سے قربانی کرے تو احتیاط اسی میں ہے کہ ایسی قربانی کا سارا گوشت تقسیم کر دے۔ (حوالہ بالا) البتہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کے جواز کے قائل ہیں۔ (مجموع الفتاوی: ۲۶/ ۳۰۶)
Flag Counter