Maktaba Wahhabi

84 - 315
انھیں بدعت نہیں کہاجاسکتا۔ جمعہ کے دونوں خطبوں سے قبل یا بعد میں ایک خطبہ دینا ایسا عمل نہیں ہے جسے ہم بدعت یا گمراہی قراردیں۔ کیونکہ اس خطبہ کی ابتدا کسی نیک مقصد کے تحت ہوئی ہے۔ مسجد کی حیثیت دینی مرکز کی ہے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسجد جس طرح عبادت اور دعوت دین جیسے بلند واعلیٰ مقصد کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اسی طرح کارہائے سیاست کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی۔ اسی مسجدمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تقریریں کیاکرتے۔ اسی میں درس وتدریس کاانتظام کرتے۔ جہادی لشکر اسی مسجد سے رخصت کرتے تھے، اسی مسجد میں وفود اور سفراکا استقبال کرتے اور ان کی باتیں سنتے تھے۔ بعض خوشی کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجد میں حبشیوں کے کھیل تماشے کا انتظام کیا، خود بھی یہ کھیل تماشے دیکھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی اپنے کندھے پر بٹھادکھایا اور کافی لطف واندوز ہوئے۔ اسی مسجد میں بعض موقع پر شعری نشست رکھوائی۔ غرض کہ یہ مسجد مختلف نیک مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ اگران مقاصد کے لیے مسجد کا استعمال شریعت کے خلاف نہیں ہے تو آخر اس اضافی خطبے میں کیا ممانعت ہوسکتی ہے جوجمعہ کے دونوں خطبوں سے قبل یا ان کے بعد دیا جاتا ہے۔ اس خطبے میں بھی اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ حالات حاضرہ سے متعلق مسائل پر بحث ہوتی ہے جن کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے ہوتاہے۔ اور لوگوں کو مفید اور کارآمد باتیں سکھائی جاتی ہیں۔ بعض ممالک وہ ہیں جہاں جمعےکے خطبے عربی میں دئیے جاتے ہیں حالانکہ یہاں کے لوگ عربی نہیں سمجھتے۔ اس لیے ان کی آسانی کے لیے جمعہ کے دونوں خطبوں سے قبل ایک خطبہ ان کی مقامی زبان میں ہوتا ہے تاکہ وہ بھی خطبوں کو سمجھنے سے محروم نہ رہیں۔ اگرچہ افضل طریقہ یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ باذات خود مقامی زبان میں ہو لیکن اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ جمعہ کے خطبے عربی زبان میں ہوں اور ان سےقبل یا بعد میں ایک خطبہ مقامی زبان میں ہو۔ چونکہ اس خطبہ میں بھی اسلام کی تعلیم ہوتی ہے اس لیے اسے بدعت یاضلالت قراردینا سراسر غلط ہوگا۔
Flag Counter