Maktaba Wahhabi

83 - 315
جاتی ہے گویا یہ جمعہ کی عبادتوں میں شامل ہے۔ کیا اس طرح کی بدعتوں میں پڑ کر مسلمان گمراہی کا شکار نہیں ہیں؟ جواب:۔ میرے بھائی!ہروہ عمل جس کی ایجاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوئی ہو اسے بدعت نہیں کہا جاسکتا۔ بے شمار ایسے اعمال اور ایسی سرگرمیاں ہیں، جن کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کوئی وجود نہیں تھا اور ان کی ابتدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوئی لیکن انھیں بدعت میں شمار نہیں کیاجاتا ہے۔ مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آبادی میں کثرت کو محسوس کیا توانھوں نےجمعہ کےدن ایک اوراذان کا اضافہ کردیا۔ اس سے قبل جمعہ کادن صرف ایک اذان دی جاتی تھی۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے متفقہ طور پر اس اضافی اذان کوقبول کیا اور کسی نے بھی اسے بدعت میں شمار نہیں کیا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تراویح کی نماز باجماعت پڑھنے کاسلسلہ شروع کروایا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے اور کوئی بھی اسے بدعت نہیں کہتاہے ۔ اسی طرح مسلمانوں نے بہت سارے ایسے علوم وفنون ایجاد کیے جن کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کوئی وجود نہیں تھا اور ان علوم کی تدریس کا انتظام مسجدوں میں کیا جاتا تھا۔ مثلاً علم فقہ، علم نحو، صرف اور علم بلاغت وغیرہ۔ اور کبھی بھی ان علوم وفنون کو بدعت میں شمار نہیں کیا گیا۔ اس لیے ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہر وہ عمل جس کی ایجاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوئی ہواسے بدعت نہیں کہا جاسکتا بشرطیکہ یہ عمل اسلام کےمجموعی مزاج، اس کی تعلیمات اور اس کے اغراض ومقاصد سے مختلف اور متعارض نہ ہو۔ حقیقت یہ ہےکہ ہردور میں انسانوں کی ضروریات بدلتی رہتی ہیں اور ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور روز بہ روز نئی نئی ترقیاں اور وسائل معرض وجود میں آتے رہتے ہیں۔ ان بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر ہم بہت ساری ایسی باتوں کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جن کاحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ نئی باتیں اگر اسلام کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہیں یا اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ ہیں تو
Flag Counter