Maktaba Wahhabi

80 - 315
خدوخال بیان فرمائے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےاپنے خطبہ میں فرمایا تھا اے لوگو!میں تمہارا خلیفہ مقرر کیاگیا ہوں حالانکہ میں تم میں سب سے بہتر شخص نہیں ہوں۔ اگر تم مجھے حق پر دیکھو تو میری مددکرو اور اگر باطل پر پاؤ تو مجھے سیدھا کردو۔ اسی مسجد میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنا پہلا سیاسی خطبہ دیا تھا اور فرمایا تھا اے لوگو!تم میں سےجوشخص مجھ میں کجی دیکھے تو اسے چاہیے کہ مجھے سیدھا کردے۔ کسی شخص نے دوران خطبہ برملا کہا کہ باخدا اگر ہم نے آپ کے اندر کوئی کجی پائی تو تلوارکی دھار پر آپ کو سیدھا کردیں گے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ شکر ہے اللہ کاجس نےعمر کی رعایامیں ایسے لوگ پیدا فرمائے ہیں جو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلوار کی دھار پر سیدھا کرسکتے ہیں۔ یہ رول ہواکرتا تھا مسجدوں کا اس زمانے میں جب مسلمانوں کو عروج حاصل تھا۔ لیکن جب اُمت مسلمہ میں انحطاط اور زوال کا دور شروع ہوگیا اور مسلم معاشرہ پسماندگی کا شکار ہوگیا تو مسجدوں نے بھی اپنا ہمہ جہت رول کھودیا، وہ صرف نمازوں تک محدود ہوکررہ گئیں اور جمعہ کے خطبے بے جان اور بے اثر ہوگئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ سیاست کو اس قدر غلیظ اور بدنام کیوں تصور کیا جاتا ہے حالانکہ سیاست بحیثیت علم نہایت سنجیدہ اوراعلیٰ وارفع علم ہے۔ سیاست بذات خود نہ گندگی ہے اور نہ جرم، لیکن جس سیاست میں اچھے بُرے کی تمیز نہ ہو اور مقصد حاصل کرنے کے لیے جائز وناجائز ہتھکنڈے اختیار کیے جائیں وہ سیاست اپنے غلط طریقے کار کی وجہ سے یقیناً گندی سیاست ہے۔ رہی وہ سیاست جس کا مقصد کارہائے حکومت کو اس طرح انجام دینا ہوکہ معاشرے میں ظلم وفساد کی سرکوبی ہو۔ مصالح عامہ کی بازیابی ہو اور معاشرے میں عدل وانصاف کا قیام ہو تو یقیناً ایسی سیاست ہمارے دین کاایک اہم حصہ ہے۔ اور اس اہم حصے کی انجام دہی کے لیے مسجدوں کو ان کے فعال کردارسے محروم کرنا زبردست غلطی ہوگی۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہمارا دین ایک مکمل نظام حیات ہے۔ جس میں عقیدہ
Flag Counter