Maktaba Wahhabi

52 - 315
جاتے تھے اور جو ان چاروں اماموں کے استاد بھی تھے۔ کون ہے جو امام زہری رحمۃ اللہ علیہ اور سعید بن المیسب رحمۃ اللہ علیہ کے ناموں سے ناواقف ہے۔ اسی طرح ان عمائدین سے قبل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی جید علماء وفقہاء پائے جاتے تھے مثلاًحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوران کے علاوہ بے شمار نام ہیں جو فقہ کے میدان میں بہت اونچے مرتبہ پرفائزتھے۔ 2۔ ان چاروں ائمہ نے کبھی اس بات کادعویٰ نہیں کیا کہ وہ معصوم عن الخطاہیں اور ان سے غلطی نہیں ہوسکتی۔ اور نہ دوسرے علماء کرام ہی ان چاروں ائمہ کے بارے میں اس طرح کادعویٰ رکھتے ہیں۔ صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ یہ امام حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح رائے قائم کرنے کے لیے اجتہاد کرتے تھے۔ ان کے اجتہاد کی بنیاد قرآن وسنت پر تھی نہ کہ اپنی مرضی اور خواہش پر۔ اسی اجتہادکے نتیجے میں ان کے درمیان اختلافات ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کےمطابق اجتہاد کی راہ میں حق اورصحیح بات تک پہنچنے والے کو دو اجر ملیں گے جب کہ غلطی کرنےوالا بھی ایک اجر کا مستحق قرارپائے گا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہاکرتے تھے کہ میں بشر ہوں اورغلطی بھی کرسکتا ہوں۔ پس میرے قول کوقرآن وحدیث کے پیمانے پرپرکھا کرو۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرمایاکرتے تھے کہ ’’یہ میری رائے ہے اور یہ رائے میری نظرمیں سب سے بہتر ہے۔ لیکن اگرمیری رائے سے بہتر کوئی رائے مجھے معلوم ہوتو میں فوراً اسے قبول کرلوں گا۔‘‘ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ ’’میری رائے میری نظر میں صحیح ہے اور غلط بھی ہوسکتی ہے۔ اور دوسروں کی رائے میں نظر میں غلط ہے لیکن صحیح بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ اس اجتہاد کانتیجہ تھا کہ کبھی کبھی ایک مسئلے میں کسی ایک امام کی ایک سے زائد رائے ہوتی تھی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جب عراق میں تھے تو عراق کے ماحول اور وہاں کی ضرورتوں کے مطابق ان کے فتوے ہوتےتھے۔ اور جب مصر میں جابسے تو مصرکے حالات اور حاجات کے مطابق ان کے فتوے عراق سے قدرے مختلف ہوتے تھے۔ اسی طرح کسی ایک مسئلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو
Flag Counter