Maktaba Wahhabi

39 - 315
قرآن کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی ہوشیاری اور سمجھ داری کی تعلیم دی گئی ہے۔ بخاری ومسلم کی حدیث ہے: " لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَيْنِ" (بخاری ومسلم) ’’ مومن ایک ہی بل سے دوبارہ نہیں ڈساجاتا ہے۔‘‘ مسلمان کو اتنا سادہ لوح، سیدھا سادھا اور بے وقوف نہیں ہونا چاہیے کہ یکے بعد دیگرے لوگ اسے نقصان پہنچاتے رہیں۔ اس کی شخصیت اتنی سستی بھی نہ ہوکہ اقوام عالم میں اس کی حیثیت کنکر کے پتھر سے زیادہ نہ ہو۔ بلکہ اس کے برعکس ایک عظیم الشان مذہب کے پیروکار کی شخصیت بھی اتنی عظیم الشان ہوکہ لوگوں کے دلوں پر اس کی حکمرانی ہو۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ ضعیف حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ’’البلہ‘‘ کی یہ تاویل کی ہے کہ یہاں ’’بلہ‘‘ (سادہ لوح) سے مُراد ایسے لوگ ہیں، جنھیں دنیا کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے اور اسی وجہ سے دنیاوی معاملات میں یہ لوگ سیدھے سادھے ہوتے ہیں۔ لیکن آخرت کے معاملے میں نہایت ہوشیار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تاویل نا مناسب معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ فرماتا ہے: "وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (6) يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ " (الروم:6۔ 7) ’’ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور یہ لوگ آخرت سے بھی غافل ہیں۔‘‘ اس آیت کی روسے وہ لوگ جنھیں دنیاوی معاملات کے بارے میں یونہی معمولی علم ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مختصر علم کو کوئی حیثیت نہ دیتے ہوئے جہالت سے تعبیر کیا ہے اور ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ آخرت کی طرف سے بھی غافل ہیں۔ مذکورہ ضعیف حدیث نے بہت سارے کم فہم مسلمانوں کو بڑا گمراہ کیا ہے۔ ان کا یہ
Flag Counter