Maktaba Wahhabi

37 - 315
مضمون دونوں اعتبار سے نہایت ضعیف ہوتی ہیں۔ علامہ ابن حجر الہیثمی نے اپنی کتاب فتاویٰ الحدیثیۃ میں اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ ضعیف احادیث پڑھنے والے امام حضرات کو خطبے کی بالکل اجازت نہ دی جائے۔ تاکہ وہ اپنی جہالت کی وجہ سے لوگوں کا دین وایمان تباہ وبرباد نہ کرسکیں۔ آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں متعدد مقامات پر اس کا تذکرہ کیا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ ایک زبردست عالم دین اور علم کلام وتصوف کے ماہر تھے تاہم علم حدیث کے معاملے میں وہ خود ہی فرماتے تھے کہ اس میدان میں ان کی نظر اور علم ذرا کوتاہ ہے۔ اس پر مزید یہ کہ وہ اس مدرسہ فکر سے متاثر تھے، جس پر تصوف اورفلسفے کا غلبہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں متعدد ایسی احادیث نقل کی ہیں، جوحد درجہ ضعیف اورگھڑی ہوئی ہیں۔ آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ ضعیف حدیث ہے بلکہ قرآن وسنت کی واضح تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔ قرآن وسنت دونوں ہی اُمت مسلمہ کو عقل وذہانت، غور وفکر اور علم وعمل کی تعلیم دیتے ہیں۔ قرآن میں سولہ مقامات پر ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو ’’اولواالالباب‘‘ (عقل مند اور سمجھدار ہیں) اور انھیں جنت کااہل قراردیا گیا ہے۔ ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو اپنی عقل اورسمجھ کو استعمال نہیں کرتے ہیں۔ نادان، غبی اور اندھے بہرے بن کرجیتے ہیں انھیں جہنم کا حقدار قراردیا گیا ہے۔ عقل اور سمجھ والوں کے سلسلے میں اللہ کاارشاد ہے: "إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ (190) الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّٰهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ" (آل عمران:190، 191) ’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے
Flag Counter