Maktaba Wahhabi

248 - 315
پر صاف صاف الفاظ میں بیان کر دیا تھا، حتیٰ کہ جنگ کے دوران بھی اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بے گناہ شہریوں مثلاً بچوں بوڑھوں اور عورتوں کی جان لی جائے یہاں تک کہ اس پادری اور پنڈت کی جان لینا بھی جائز نہیں ہے جو جنگ سے کنارہ کش ہو کر کنیسا یا مندر میں بیٹھ کر عبادت میں مشغول ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض انصاف پسند تاریخ دانوں نے اعتراف کیا ہے کہ تاریخ نے مسلمانوں سے زیادہ رحم دل فاتح نہیں دیکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ زیادتی صرف انسانوں ہی پر نہیں بلکہ جانوروں پر بھی جائز نہیں ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ایک عورت محض اس وجہ سے جہنم کی حق دار ہوگئی کہ اس نے ایک بلی کو گھر میں قید کر دیا۔ نہ اسے کھانا دیا اور نہ گھر سے باہر جانے دیا کہ خود سے کچھ کھاپی لے۔ یہاں تک کہ بلی بھوک سے مر گئی۔ ذرا غور کیجیے کہ ایک بلی کو بلا وجہ قید کرنا اور اس کو اذیت دینا اتنا بڑا جرم ہے تو ان لوگوں کا جرم کس قدر بھیانک ہوگا۔ جنھوں نے بے گناہ مسافرین کو طیارے کے اندر قید کر دیا ۔ انھیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا اور ان میں سے بعض کی جان لے لی۔ (2)ہر شخص اپنے گناہ کا خود ذمے دار ہے۔ "وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ " (النجم:38) ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ بلا شبہ اسلام کے اصولوں میں سے ایک واضح اصول یہ ہے کہ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمے دار ہے۔ اگر کسی نے غلطی کی ہے تو اس کی غلطی کی سزا اس کے باپ یا بھائی کو نہیں دی جائے گی۔ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ طیارے کے اغوا کنندگان خود کو متقی اور پرہیز گار ظاہر کرنے کے باوجود اسلام کے اس واضح حکم سے کھلا انحراف کر رہے تھے۔ انھوں نے حکومت سے اپنے مطالبات منوانے اور اس پر دباؤ ڈالنے کے لیے بے گناہ مسافروں پر ظلم کیا اور ان کی جان لی۔ حالانکہ یہ مسافر بالکل بے قصور تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا بھیانک جرم وہ اسلام کے نام پر کر رہے
Flag Counter