Maktaba Wahhabi

247 - 315
لطف کی بات یہ ہے کہ اغوا کنندگان اپنے بارے میں متقی اور پرہیز گار ہونے کی بھی نمائش کررہے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے طیارے کا اغوا اچھے اور نیک مقصد کے لیے کیا ہے۔ وہ نماز یں پڑھتے تھے روزے بھی رکھتے تھے اور ان کی زبانیں ذکر الٰہی میں مشغول رہتی تھیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ اس صورت حال میں اسلام کا کیا موقف ہے؟ کیا واقعی کسی اچھے اور نیک مقصد کے لیے اغوا جیسا گھناؤنا جرم کیا جا سکتا ہے؟ کن گناہوں کی پاداش میں انھوں نے مسافروں کو اغوا کیا اور ان میں سے بعض کی جان لے لی۔ کیا اسلام اس طرح بے گناہوں کو ڈرانے دھمکانے اور ان کی جان لینے کی اجازت دیتا ہے؟ جواب:۔ بلاشبہ میں نے اور میرے جیسے ان کروڑوں مسلمانوں نے جن کا دل ابھی پتھر نہیں ہوا ہے۔ مذکورہ واقعے سے سخت اذیت محسوس کی تھی ۔ میں نے اپنے خطبوں اور ٹی وی کے پروگراموں میں اس حرکت کی سخت مذمت بھی کی تھی۔ بے گناہ افراد پر ظلم گناہ اور جرم ہے خواہ وہ کسی بھی دین یا کسی بھی قوم و ملت سے تعلق رکھتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اس معاملے میں یہودیوں کی طرح اسلام کے دو پیمانے نہیں ہیں۔ یہودی قوم یہودیوں پر ظلم و زیادتی کو برداشت نہیں کرتی لیکن خود دوسروں پر ظلم و زیادتی کرنے میں کوئی گناہ محسوس نہیں کرتی۔ میں اسلام کے چند بنیادی اصول پیش کرتا ہوں تاکہ اسلامی قوانین کی روشنی میں آپ کو اپنے سوال کا جواب مل سکے۔ (1)بے گناہوں پر ظلم و زیادتی کرنا حرام ہے۔ اسلام کسی بے گناہ انسان پر ظلم و زیادتی کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں قراردیتا۔ خواہ بے گناہ شخص مسلم ہو یا غیر مسلم یا اس کا تعلق کسی بھی ملک یا قوم و ملت سے ہو۔ زیادتی کرنے والا اگر خلیفہ وقت بھی ہو تب بھی اسلام اسے برداشت نہیں کرتا۔ اس بات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع
Flag Counter