Maktaba Wahhabi

232 - 315
شطرنج سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جن اقوال کو نقل کیا گیا ہے ان میں سے کوئی بھی قول باوثوق ذرائع سے ثابت نہیں ہے۔ علامہ ناصرالدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "ارواء الغلیل" میں تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی قول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے بالفرض اگر تسلیم بھی لیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شطرنج کو دیکھ کر یہ بات کہی تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھیں ذاتی طور پر یہ کھیل پسند نہیں آیا۔ کیونکہ اگر یہ کھیل حرام ہوتا تو آگے بڑھ کر بزور قوت وہ اس کھیل کو روک دیتے کیونکہ وہ خلیفہ وقت تھے۔ اس کے برخلافت جو بات باوثوق ذرائع سے مروی ہے۔ وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود بھی اس کھیل سے متعلق مختلف رائے رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہم کے نزدیک یہ کھیل ناپسندیدہ اور مکروہ ہے۔ جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک یہ کھیل مباح اور جائز ہے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شطرنج کھیلتے تھے۔ اس وضاحت کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ شطرنج کو حرام قراردینے کے لیے کوئی واضح اور مضبوط دلیل نہیں اور بغیر کسی واضح دلیل کے کسی بھی چیز کو حرام نہیں قراردیا جا سکتا۔ دوسرے کھیلوں کی طرح شطرنج بھی تفریح کا ایک ذریعہ ہے اور اس بات میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ جائز تفریح کی ضرورت سبھی کوہوتی ہے۔ اپنے فارغ اور خالی وقت میں اگر کوئی شخص تفریح کی خاطر تھوڑی دیر کے لیے شطرنج کھیل لیتا ہے تو یہ اس بات سے بہت بہتر ہے کہ وہ اپنا فارغ وقت غیبت یا کسی دوسرے فضول مشغلے میں گزار دے۔ شطرنج کے سلسلے میں میرا موقف یہ ہے کہ یہ ایک جائز کھیل ہے، بشرطیکہ: 1۔ اس میں جوانہ شامل ہو۔ اس لیے کہ جوا گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔
Flag Counter