Maktaba Wahhabi

215 - 315
صرف ایک شخص یا ایک کمپنی ہو۔ یہ شخص یا کمپنی اشیاء صرف کو بازار میں پہنچنے سے قبل اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔ اور جب ان اشیاء صرف کی مانگ بڑھتی ہے تو یہ کمپنی ان کی من مانی قیمت وصول کرتے ہیں۔ اسے اصطلاح میں Monopcly یا اجارہ بھی کہتے ہیں۔ سود کی طرح سے یہ چیز بھی سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں میں سے ہے۔ فقہاء کے نزدیک اس بات میں اختلاف ہے کہ کن اشیاء صرف کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے؟ بعض فقہاء کے نزدیک صرف کھانے پینے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔ میرے نزدیک زیادہ صحیح اورمتعبر رائے یہ ہے کہ ان تمام اشیاء صرف کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے جنھیں ضروری اور لازمی اشیاء(Essential Goods) کا نام دیا جاسکتا ہے مثلاً کھانے پینے کی چیزیں، دوائیں، کپڑے، مکانات اور روز مرہ کے استعمال کی چیزیں وغیرہ و غیرہ۔ لازمی اورضروری اشیاء کا تعین زمانے کے لحاظ سے کیا جائے گا کیونکہ بہت ساری ایسی چیزیں جنھیں آج سے چند سال قبل سامان تعیش(Luxury Goods) کہا جاتا تھا۔ آج انھیں لازمی اشیاء میں شمار کیا جاتا ہے۔ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ ہر اس چیز کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے جس کی ذخیرہ اندوزی سے عوام کو نقصان اور تکلیف ہو۔ فقہاء کے درمیان اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ کیا ہرحالت میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے یا صرف تنگی اور قلت کی حالت میں؟ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ صرف تنگی اور قلت کے زمانے میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔ لیکن اگر ان اشیاء کی تنگی اور قلت نہ ہو بلکہ مارکیٹ میں ان اشیاء کی بہتات ہوتو ایسی صورت میں ان اشیاء کی ذخیرہ اندوزی حرام نہیں ہے۔ لیکن بعض فقہاء کےنزدیک ہر حالت میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے لازمی طور پر ان اشیاء کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے اور اسے مارکیٹ پر چھوڑدیا ہے کیونکہ مانگ اور سپلائی کے اُصول پر مارکیٹ منافع کی شرح خود ہی مقرر کر
Flag Counter