Maktaba Wahhabi

209 - 315
دھیرے دھیرے یہ بغیر کسی منافع کے ختم ہوجائے گا۔ یہ حدیث تجارت کے سلسلے میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ وہ یہ کہ کسی بھی تجارت کا کم از کم یہ مقصد ہونا چاہیے کہ اس سے نفع حاصل کیا جائے تاکہ اس نفع سے انسان کی ضرورتیں پوری ہوں۔ نان ونفقہ کا انتظام ہوجائے۔ اور اس نفع کی وجہ سے اصل سرمایہ میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے نہ کہ زکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے دھیرے دھیرے یہ اصل سرمایہ بھی ختم ہوجائے۔ قرآن وسنت کے تفصیلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہےکہ شریعت نے منافع کی کوئی شرح متعین نہیں کی ہے۔ نہ دس فیصد نہ بیس فیصد اور نہ اس سے زیادہ یا کم۔ شاید اس کی حکمت ومصلحت یہ ہے کہ ہرزمانے اور ہر علاقے کے لیے منافع کی ایک ہی شرح متعین کرناعدل وانصاف کے منافی ہے، کیونکہ کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کی کھپت(Consurning) بہت تیز ہوتی ہے۔ اور ان کی فروخت جلد جلد ہوتی ہے۔ مثلاً کھانےپینے کی چیزیں۔ کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کی کھپت بہت سست اور کبھی کبھی ہوتی ہے۔ مثلاً کار، فرنیچر اور کپڑے وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں طرح کے سامان تجارت میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ جس سامان تجارت کی کھپت جلد اورتیز ہوتی ہے ان میں منافع کی شرح کم ہونی چاہیے۔ جب کہ دوسری قسم کے سامان تجارت میں یہ شرح زیادہ ہوسکتی ہے۔ سامان تجارت کبھی نقد بیچے جاتے ہیں اور کبھی اُدھار۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہوسکتی ۔ نقد خرید وفروخت میں منافع کی شرح اُدھار کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ بعض دکان دار چھوٹے ہوتےہیں اور کم سرمایے سے تجارت کرتےہیں۔ جب کہ بڑے دکان دار بڑے سرمایہ سے تجارت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بڑا سرمایہ دار بہت کم منافع لے کر بھی فائدے میں رہے گا۔ جب کہ چھوٹا دکان دار کم منافع لے کر اپنی تجارت کو فروغ نہیں
Flag Counter