Maktaba Wahhabi

193 - 315
آپ نے دیکھ لیا کہ عورتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے ایک بھی ایسی دلیل نہیں ہے جسے واضح اور دوٹوک کہا جاسکے۔ بلکہ یہ بات اسلام کی عمومی تعلیمات کے خلاف ہے کہ عورتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے کلیتاً روک دیا جائے۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ عورتوں کی سیاسی سرگرمیوں کو ناجائز قراردینے کے لیے قرآن وحدیث میں کسی دلیل کا نہ ہونا بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے لیے سیاسی سرگرمیاں جائز ہیں۔ کیونکہ اگر یہ بات ناجائز ہوتی تو قرآن وحدیث میں اس کاذکر لازماً ہوتا۔ آج کے جمہوری دور میں کسی وزیراعظم، وزیر، پارلیمانی ممبر یاکسی بھی منصب پر فائز شخص کی ذمے داریوں کا ایک بڑا حصہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے کاموں کی نگرانی کی جائے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کیا جائے۔ معاشرے میں جرائم اور فسادات کی روک تھام کی جائے اور اربابِ حکومت کو حکومت چلانے کےلیے مفید مشورے دئیے جائیں۔ اور یہ سارے کام اور ذمہ داریاں وہی ہیں جنھیں قرآن اپنی زبان میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کہتا ہے۔ اور حدیث میں ان کے لیے اس طرح کے الفاظ ہیں"الدين النصيحة " ’’دین نام ہے لوگوں کے لیے خیرخواہی کا۔‘‘ ان ذمے داریوں کو انجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یکساں طور پر مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کیا ہے: "وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ" (التوبہ:71) ’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار اور رفیق ہیں۔ یہ سب مل کر بھلائی کا حکم دیتے ہیں اوربُرائی سے روکتے ہیں۔‘‘ اور تاریخ گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد میں مردوں اور عورتوں دونوں نے مل کر یہ ذمے داریاں نبھائی ہیں۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سیاسی مشورے کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشوروں پر عمل کیا اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔ یہ واقعہ بھی سب جانتے ہیں کہ مسجد میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطبہ دے رہے
Flag Counter