Maktaba Wahhabi

144 - 315
ترقی میں نمایاں رول ادا کر سکیں۔ اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ آج کے بچے مستقبل کے معمار ہیں تو پھر ان کی بہتر اور مکمل تربیت سے زیادہ نفع بخش کام اور کون سا ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خالق کائنات نے بھی عورت کو جسمانی اور ذہنی اعتبار سے اس ذمے داری کے لیے نہایت موزوں بنایا ہے۔ مستقبل کا تعلق خواہ دنیا وی بہبود سے ہو یا آخرت کی فلاح و کامرانی سے عورت اگر اپنے بچوں کی اس رخ پر تربیت کرتی ہے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔ بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ عورت کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو پرسکون اور آرام دہ بنانے کی بھر پورسعی کرے۔ اپنے شوہر اور بچوں کو راحت اور سکون پہنچانے کے لیے کام کرے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھر سے باہر جا کر نوکری کرنے کی گنجائش عورتوں کے لیے نہیں ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے کہ گھر سے باہر نکل کر عورتوں کا نوکری کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ جب شریعت نے یہ چیزحرام نہیں کی ہے۔ تو کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک حلال چیز کو حرام قراردے۔ ویسے بھی اسلامی فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اصولی طور پر حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں قرآن و حدیث میں واضح طور پر حرام قراردیا گیا ہے اس لیے اصولی طور پر یہ چیز جائز اور حلال ہے۔ اس قاعدے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کا نوکری کرنا جائز ہے بلکہ اگر وہ مطلقہ یا بیوہ ہے اور آمدنی کے سارے راستے اس پر بند ہوں تو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ اگر وہ نوکری یاجاب کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے تو اسے چاہیے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے ملازمت کر لے۔ تاکہ وہ تمام رسوائیوں سے محفوظ رہے بعض حالات میں شوہر کی موجودگی میں بھی عورت کو نوکری کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ مثلاً شوہر کی آمدنی
Flag Counter