Maktaba Wahhabi

117 - 315
ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عورتوں کو سلام کیا کرتے تھے اور عورتیں بھی سلام کا جواب دیتی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں ہے۔ اوپر میں نے صرف چند مثالیں پیش کی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عورتوں کو سلام کرنے میں کوئی قباحت نہیں محسوس کرتے تھے لیکن آج کے بعض علماء حضرات اس سے منع کرتے ہیں۔ انھیں عورتوں کے سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ اور خوف محسوس ہونا ہے۔ ان کے مطابق احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نہ عورتوں کو سلام کیا جائے اور نہ یہ سلام کا جواب دیں۔ احناف کہتے ہیں کہ عورتیں صرف اپنے محرم مردوں کو سلام کر سکتی ہیں بعض علماء کرام کے نزدیک صرف بوڑھی عورتوں کو سلام کرنا یا ان کے سلام کا جواب دینا جائز ہے اور ان سب کی صرف ایک ہی دلیل ہے اور وہ ہے فتنہ کا اندیشہ پتہ نہیں اس طرح کے علماء کرام عورتوں کے معاملے میں اس قدر حساس اور محتاط کیوں واقع ہوئے ہیں کہ انھیں عورتوں کے ساتھ کسی بھی معاملے میں فتنہ کا اندیشہ ہوتا ہے حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل ثابت کرتا ہے کہ لوگ عورتوں کے معاملے میں اس طرح کے حساس اور سخت گیر نہیں تھے اور نہ اس قدر احتیٰاط کے زائل تھے۔ ایک بھی ایسی روایت اور حدیث نہیں ہے جس میں اس بات کا بیان ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عورتوں کو سلام کرے میں کوئی حرج محسوس کرتے تھے۔ خاص کرجب کوئی ملاقات کی غرض سے ان کے پاس جاتا یا معلم اور معالج کی حیثیت سے ان کے پاس جاتا البتہ راہ چلتے کسی عورت کو سلام کرنا مناسب نہیں ہے الایہ کہ اس سے کسی قسم کی قریبی رشتہ داری ہو یا ایسا کوئی قریبی تعلق ہو جیسا کہ استاد اور شاگرد کے درمیان ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے سوال میں اپنے ایک استاد کا طرز عمل تحریر کیا ہے کہ وہ عورتوں کو سلام کرنا درست نہیں تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی استاد پڑھاتےوقت آپ عورتوں سے باتیں کرتے ہیں۔ آپ کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں اور آپ سے سوال کرتے
Flag Counter